واشنگٹن//
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیل کے امریکی اتحادی ہونے کے ناطے اس کے لیے امریکہ کی پختہ حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ امریکا کا یہ اتحادی سیاسی اور حکومتی سطح پرعدم استحکام کا شکار ہے کہ یہ چار سال سے بھی کم عرصے میں پانچویں انتخابات کی طرف جا رہا ہے۔
فون پر انٹونی بلنکن نے اگلے انتخابات تک کے لیے امکانی عبوری وزیر اعظم اور اسرائیل کے موجودہ وزیر خارجہ یائر لیپڈ سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے ’’ایک مرتبہ پھر تصدیق کہ کہ صدربائیڈن اسرائیلی کی مخصوص سیاسی صورت حال کے باوجود ماہ جولائی میں اسرائیلی دورے پر آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا’’امریکی صدر بائیڈن کا ان حالات میں بھی اسرائیل کے دورے پر جانے کا پختہ عزم یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہماری ایک مضبوط سٹریٹجک پارٹنر شپ ہے۔ ’’ انہوں نے زور دے کر کہا’’ ہمارا علاقائی اور عالمی ایشوز پر باہمی تعاون جاری رہے گا۔
اس سے قبل امریکی ترجمان پرائس نے رپورٹرز کو بتایا’’ امریکا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی نوعیت ایسی ہے جس میں یہ اہم نہیں ہے کہ وائٹ ہاوس میں کون بیٹھا ہے یا اسرائیل میں کون وزیر اعظم ہے۔
ادھر اسرائیل میں چار سال سے کم کے عرصے میں پانچویں امکانی انتخابات میں سابق وزیر اعظم نیتن یاہو کی ایک بار پھر اقتدار میں واپسی کا امکان لگ رہا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو دائیں بازو کے پرانے سیاستدان ہیں جو سابق سیاہ فام امریکی صدر اوباما کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا احساس رکھتے رہے۔
جبکہ اسرائیل کی موجودہ دائیں بازو کی مخلوط حکومت جس کی قیادت نفتالی بیننٹ کے ہاتھ میں رہی ہے نے بھی اپنے سب سے بڑے اتحادی امریکا کے ساتھ تعلقات میں زیادہ گرم جوشی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس سے قبل نیتن یاہو نے امریکی ری پبلکن پارٹی کی کے ساتھ رہے خصوصا ایران کے جوہری پروگرام پر سابق صدر اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ معاہدہ ہوا تو نیتن یاہو نے اس پر بھی سخت ترین موقف جاری رکھا۔
دائیں بازو کا کٹر یہودی ہونے کے حوالے سے نیتن یاہو کے فلسطین ایشو بارے طریقہ کارنے بائیڈن اور ان کی بائیں بازو کی طرف جھکاو رکھنے والی ڈیموکریٹک پارٹی کو خود سے دور کر لیا جو کہ روایتی طور پر اسرائیل کی حمایت کرتی رہی ہے۔
اب اسرائیل میں حکومتی سطح پر شکست و ریخت کے باوجود امریکی صدر کا اسرائیل کے لیے بھر پور جذبے کے ساتھ مشرق وسطی آنا امریکا کی اسرائیل کے ساتھ غیر معمولی کمٹمنٹ کا اظہار ہے۔ اس دورہ مشرق وسطی کی ایک اہمیت امریکہ کے مڈٹرم الیکشن کے حوالے سے بھی ہے جو ماہ نومبر میں ہونے جا رہے ہیں۔