واشنگٹن///
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران کے جوہری پروگرام کے بارے میں جاری امریکی-ایرانی مذاکرات کے حوالے سے کہا ہے کہ مذاکرات اچھے انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور تہران کے ساتھ معاہدہ طے پانے کا قطعی امکان موجود ہے۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ معاہدہ طے پانا اور کسی حل تک پہنچنا، بم باری جیسے متبادل حل سے کہیں بہتر ہے۔
امریکہ اور ایران اب تک عمان کی ثالثی میں تین دور کی بالواسطہ بات چیت کر چکے ہیں، جن کا مقصد ایک ایسے معاہدے تک پہنچنا ہے جو تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکے، اور اس کے بدلے میں واشنگٹن کی طرف سے عائد سخت اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں۔
اس سے قبل، ایرانی مذاکراتی وفد کے رکن مجید روانچی نے انکشاف کیا کہ مذاکرات کے تیسرے دور میں نئے معاہدے کے متن کی تیاری کی کوشش کی گئی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ یورینیم کی صفر سطح پر افزودگی اور بیلسٹک میزائلوں کے معاملات مذاکرات میں زیر بحث نہیں آئے۔ روانچی نے اس معاملے کو ایک "سرخ لکیر” قرار دیا۔
روانچی کے مطابق، ایرانی مذاکراتی وفد کی توجہ دو نکات پر مرکوز ہے : ہمارے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر اعتماد کی بحالی اور اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ۔
امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل” کے مطابق مسقط میں حالیہ مذاکرات کے دوران واشنگٹن اور تہران کے درمیان اختلافات بنیادی طور پر ایرانی یورینیم افزودگی پروگرام پر مرکوز رہے۔
اخبار نے مزید وضاحت کی کہ ٹرمپ انتظامیہ ایرانی میزائل پروگرام کو نئے جوہری معاہدے سے منسلک کرنا چاہتی ہے، جسے تہران نے مسترد کر دیا۔ اختلافات کی موجودگی کے باوجود فریقین نے دوبارہ ملاقات کرنے کے عزم کے ساتھ بات چیت ختم کی۔
اسی دوران، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اتوار کے روز ایک بار پھر ایران کے جوہری ڈھانچے کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب واشنگٹن اور تہران کے درمیان معاہدے کے لیے بات چیت جاری ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ "اچھا معاہدہ” صرف وہی ہوگا جس کے نتیجے میں "جوہری ڈھانچے کا مکمل خاتمہ” ہو، جیسا کہ 2003 میں لیبیا اور مغرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں ہوا تھا۔ اس کے تحت لیبیا نے اپنے جوہری، کیمیائی، حیاتیاتی اور میزائل پروگرام ترک کر دیے تھے۔