کشمیرہی نہیں بلکہ کشمیر کا ہرفرد بیمار ہے۔وہ اس قدر کیوں بیمار ہے اور مختلف نوعیت کے امراض میںمبتلا ہوتاجارہاہے۔اگر چہ کشمیرمیں پرائیوٹ اور پبلک سیکٹرمیں بہتر طبی نگہداشت اور تشخیص دسیتاب ہے ، ماہرین کی خدمات بھی قدم قدم پر مریضوں کو دستیاب ہے لیکن اس کے باوجود نہ امراض ختم ہور ہے ہیں اور نہ مریضوں کو کوئی خاص افاقہ حاصل ہورہاہے۔
ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب کشمیرنے بہت پہلے تلاش کرکے دیدیا ہے لیکن تدارکی اقدامات کا فقدان ہے ۔ کسی کو جواب دہ نہیں بنایا جارہاہے۔ محاسبہ کاکوئی عمل دخل نہیں۔یہ سسٹم کی پیداوار ہے اور ناکامی کا بوجھ بھی ظاہر ہے اسی سسٹم پر ہے۔ اس سسٹم نے جو راستے طبی نگہداشت ، ادویات کی سٹاک، سپلائی اور کھپت پوزیشن کے حوالہ سے اختیار کررکھے ہیں ان کی حیثیت گذرے برسوں کے دوران لکیر کا فقیر سے بھی ابتر بن چکی ہے۔ سسٹم سے کسی بھی راہ فرار یا تبدیلی کو پسند نہیں کیاجارہا ہے کیونکہ یہ طریقہ کار یاسسٹم نہ صرف ناجائز اور بغیر صحت کے دولت کے انبار لگانے میں کلیدی کردارادا کررہاہے بلکہ سیاسی سطح پر بھی اس کے کچھ فائدے حاصل کئے جارہے ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران کشمیرمیں ڈرگ مافیا معرض وجود میں لایاگیا جس نے اب گہری اور مضبوط جڑیں حاصل کرلی ہیں۔یہ ڈرگ مافیا اس قدر طاقتور اور اس کے بال وپر اس قدر دراز ہیں کہ ان کی کاٹ اب ناممکن بن رہی ہے۔ اس ڈرگ مافیا کو ریاست کی سیاسی آشیرواد بھی حاصل ہے اور انتظامی سطح پر سرپرستی بھی۔
یہ کوئی پوشیدہ راز نہیں کہ عرصہ سے کشمیر میں غیر موثر دو نمبری اور غیر معیاری ادویات کی کھپت ہے اور اس کھپت کو یقینی بنانے کیلئے بیرون کشمیر دوا ساز کمپنیوں نے بحیثیت مجموعی ڈرگ مافیاز کی بھی خدمات حاصل کرلی ہیں جبکہ ادویات کی خرید وفروخت کیلئے ڈرگ کو نٹروں کی خدمات بھی حاصل کررکھے ہیں۔ غیر معیاری اور غیر موثر ادویات مریض کے استعمال کیلئے اس کے ہاتھوں میںپہنچ جائے اس کو یقینی بنانے کیلئے ہوس پرست اور لالچی ڈاکٹروں کے قبیلوں کو بھی خرید کررکھاگیاہے۔
اس قبیل کے ڈاکٹروں کو مختلف نوعیت کی مراعات سے نواز جارہا ہے۔ گاڑیوں کی خریداری کیلئے قرضوں کی اقساط بینکوں میں جمع کرانے سے لے کر تحائف اور نذرانے الگ سے دستیاب ہیں۔ چھٹیاں منانے کیلئے ٹریول اخراجات، ہوٹل میں قیام وطعام او رسیر سپاٹ کیلئے مناسب فنڈز کی فراہمی اب کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ بلکہ اب چند قدم آگے بڑھ کر اب یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ کئی ڈاکٹر کمپنیوں کی نئی ادویات کا تجربہ کشمیرمیں بیماروں پر کررہے ہیں جبکہ ایسی ادویات کے بارے میں دعویٰ کیاجارہاہے کہ ان ادویات کو متعلقہ اداروں یا اتھارٹیز کی طرف سے ابھی مارکیٹ میںلانے کی کلیئرنس نہیں ملی ہے۔ یہ معاملہ ریاست کی ڈرگ اتھارٹیز کی نوٹس میں آچکاہے ۔ اس بارے میں انتہائی رازداری سے کام لیاجارہا ہے اور کوئی تفصیل نہیں دی جارہی ہے۔
کشمیرمیںڈاکٹروں کی کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ لیکن ان تنظیموں کو اب تک یہ توفیق نہیں ہوئی ہے کہ وہ ان معاملات کے حوالہ سے لب کشائی کریں ۔ اگر چہ دوسرے کئی معاملات پر ان تنظیموں کی توجہ ہے لیکن غیر موثر اور غیر معیاری ادویات کشمیر کا مقدر کیوں بنائی جارہی ہیں یہ اشو ان تنظیموں کیلئے اہم نہیں۔
کشمیر میں مارکیٹ کو غیر موثر اورغیر معیاری ادویات کی کھپت کے ایک بڑے اڈے یا آماجگاہ کے طور استعمال کرکے دوا ساز کمپنیاں سالانہ اربوں کا منافع حاصل کررہی ہیں۔اس منافع کا ایک حصہ ان ادویات کی دکان کے مالکان وصول کررہے ہیں جنہوںنے اپنی دکانوں کے کونٹر ان غیر معیاری ادویات کی فروخت کیلئے وقف کررکھے ہیں۔
جو ادویات کشمیرمیںدستیاب ہیں ان ادویات کا ۹۰؍فیصد جموں میں کیوں دستیاب نہیں ہے‘ اس کی وجہ بتاتے ہوئے جموں کے کئی ادویات فروش کا دعویٰ ہے کہ وہ کمپنیوں سے یہ غیر معیاری اور غیرموثر ادویات خریدنے اور فروخت کرنے سے اجتناب کررہے ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا سکینڈل ہے۔ وضاحت کرکے ان کا مزید کہنا ہے کہ بیچ نمبر، قیمت فروخت اور دیگر معلومات تو یکساں ہیں لیکن اسی بیچ نمبر وغیرہ کے تحت کشمیرمیںغیر موثر ادویات کو مارکیٹ میں کھپا یاجارہاہے۔
اس بڑھتی اور پھیلتی وباء پر قابو پانے میں نہ صرف کشمیرکا ڈرگ محکمہ بلکہ محکمہ صحت اور اس کی ماتحت ذیلی اکائیاں اور ڈرگ پرچیز ادارہ سرے سے ناکام ہے۔ ادویات کی جانچ پڑتال وغیرہ کیلئے کشمیرمیںسرکار بھی کوئی موثر ادارہ(لیبارٹری) قائم کرنے میں اب تک ناکام نظرآرہی ہے۔ اگر چہ لیبارٹری کے نام پر ایک چھوٹا سا ادارہ موجود ہے لیکن یہ ادارہ ضروری لوازمات اور جدید سہولیات کی عدم دستیابی کے پیش نظر مفلوج ہی ہے۔ ادویات پر درج قیمتوں کا معاملہ الگ ہے جبکہ اس حوالہ سے بھی جموں ،سرینگر کو بہت پیچھے چھوڑرہا ہے۔
کیا کشمیرکو کوئی ایسا دن دیکھنا نصیب ہوگا جب لوگوں کو غیر معیاری اور غیر موثر ادویات سے چھٹکارا مل جائے ، لالچی اور ہوس گیر ڈاکٹروں کے قبیلے سے نجات ملے گی اور ڈرگ مافیا کے پنچوں کو زمین کے اندر گہرائی تک گاڑدیاجائیگا؟