جب سیاست اور سیاسی نظریہ اور موقف میں بدزبانی، بدکلامی اور اخلاقیات سے گری زبان کو روز مرہ معمولات کا ان مٹ حصہ بنایا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کلام کرنے والے کی فطرت اور خصلت کس داخلی اور خارجی غلاظت اور گندگی سے عبارت ہے۔ جموںوکشمیر باا لخصوص کشمیر کے حوالہ سے جب بھی سیاست سے وابستہ کچھ لوگ بات کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ اپنے گمراہ کن اور اختراعی نریٹو کو باربار اور قد م قدم پر زبان دے کر تاریخی واقعات کو ان کے سیاق وسباق سے توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہیں اور پھر اپنی اس بدزبانی پر اعتباریت کی چھاپ ثبت کرنے کیلئے کسی بھی حد تک خود کو گرادیتے ہیں۔
رواں بجٹ سیشن کے دوران کچھ ممبران نے تعطیلات کے حوالہ سے کچھ مطالبات کئے جن میں سے ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ۵؍ دسمبر شیخ محمدعبداللہ کی یوم پیدائش اور ۱۳؍ جولائی ۱۹۳۱ء کے شہداء کی یاد میں ان تعطیلات کو بحال کردیاجائے۔ جو سرکاری چھٹیوں کے حوالہ سے کلینڈر کا حصہ رہی ہیں لیکن جنہیں چند برس قبل فہرست سے ہٹا دیاگیا ہے۔
سیاسی نظریات کو بُنیاد بناکر کو ئی حمایت کرے یا کوئی مخالفت، یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہے لیکن ان مخصوص ایام کے حوالہ سے بدزبانی، بدکلامی اور اخلاقی گراوٹ کو جس انداز سے زبان دی گئی ہے وہ شرمناک ہی نہیں بلکہ جن لوگوں نے بدکلامی کی اور کشمیر کے ان مخصوص شہدا کو ’ملک کا غدار‘ ٹھہرایا یہ ان کی اخلاقی نہیںذہنی پسماندگی کے ساتھ ساتھ کشمیر دُشمنی کی ان کی روایت پر ایک اور مہرتصدیق ثبت کرنے کے مترادف ہے ۔
پہلی بات یہ کہ ۱۳؍ جولائی کے شہداء نے کسی ملک کے خلاف نہیں کیونکہ جموں وکشمیر اُس وقت خود ایک خود مختار ملک تھا فرق صرف یہ تھی کہ اُس خودمختار ملک کا حاکم ڈوگرہ حکمران تھا جو مطلق العنان تھا اور جدید اور پرانی اصطلاح میں مطلق العنان ہی کو آمر کہا جاتا ہے ۔ وزیراعلیٰ نے اسمبلی میں گورنر کے خطبے پر شکریہ کی تحریک پر بولتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ’’ان شہدانے جمہوریت اور آزادی اظہار کی خاطر قربانیاں دی اور یہ انہی قربانیوں کا ثمرہ ہے جوا س اسمبلی کی بعد میں بُنیادبنی۔ وہ اس لئے مارے گئے تھے کہ وہ مسلمان تھے، ہندوستان میں جہاں کہیں آمریت کے خلاف آواز بلند ہوئی اور شہادت پائی ان لوگوں کااحترام کیا جارہا ہے ، انہیں غدار نہیں کہا جاتا‘‘۔
بی جے پی یا اور کسی کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی نظریات کی پیروی میںکسی بھی اشو کی مخالفت کرے لیکن سیاسی آداب اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے، شہدا کو غدار ایسے الفاظ سے یاد کرنا ناقابل قبول بھی ہے اور ناقابل برداشت بھی۔ پھر اپنے اس حوالہ سے اختیار کردہ نریٹو کو سچ پر مبنی جتلانے کی جو کوشش کی جارہی ہے اور اس کے لئے تاریخی واقعات کو توڑ مروڑ کر جس انداز میں پیش کیاجارہاہے اور ان شہداء کو ایک مخصوص کمیونٹی کی مبینہ لوٹ مار سے منسوب کیا جارہا ہے وہ زیادہ ہی شرمناک اور اخلاق سے گرا نریٹو ہے۔
کشمیرکی آج کی پود کو ڈوگرہ حکمران کا اُس کرداراور فیصلہ سازی کے حوالہ سے والہانہ احترام ہے جس کا تعلق جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے حقوق، مفادات اور شہریت کے تحفظ سے تھا لیکن جن تحفظات کو ۵؍برس قبل ختم کردیا گیا۔ البتہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ڈوگرہ حکمران مطلق العنان تھے اور اس حوالہ سے ان کی حیثیت ایک آمر کی تھی تویہ تاریخ کا ناقابل تردید سچ ہے جس کا اظہار نائب وزیراعلیٰ سریندر چودھری نے اپنے ردعمل میں بھی کیا لیکن چودھری صاحب کے اس سچ کو ڈوگرہ حکمران کی توہین کے طور پر پیش کیاجارہاہے ۔ اب اصل میں ڈوگرہ حکمرانوں کی توہین کا مرتکب کون ہوہا ہے وہ محتاج بیان نہیں، ڈوگروں کی تشکیل ریاست جموں وکشمیر کو تقسیم درتقسیم کرنے کا مجرم اور ملزم کون ہے وہ بھی محتاج بیان نہیں ، ایک حصے پر پاکستان قابض ہے ، دوسرے پر چین قبضہ کربیٹھا ہے،کرگلی اور لداخ کو حالیہ برسوں کے دوران جموںوکشمیر سے الگ کرکے یوٹی بنایا گیا اور اب رہے سہے جموں پر مشتمل علیحدہ یونٹ قائم کرنے کیلئے آوازیں لداخ یا کشمیرسے نہیں بلکہ خود جموںکے اندر سے بلند کی جارہی ہیںجو لوگ ان آوازوں کو ایک مدت سے بلند کررہے ہیں وہ ایک ایک کرکے حکمران جماعت میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ ایک جماعت کو سرپرستی حاصل ہے۔
مہاراجہ نے بنگال کے ایک دانشور ماہر سربنرجی کی خدمات حاصل کرکے انہیں جموںوکشمیر کا نظم ونسق حوالہ کیا اور اصلاحات کی ہدایت دی۔ لیکن سربنرجی اپنی خدمات کی مدت کا عرصہ مختصرکرکے مستعفی ہو کر واپس چلا گیا ، جاتے جاتے مہاراجہ کے نام ایک تحریری نوٹ میں اُس جبر وظم، چیرہ دستیوں، لوٹ مار، کورپشن ، انتظامیہ اور فیصلہ ساز اداروں میں ایک مخصوص کمیونٹی کے تعینات اہلکاروں کی دھاندلیوں کاپردہ چاک کرکے رکھدیا۔ تقسیم ہند کے تناظرمیں سرحد کے آر پار بہت سارے خونریز واقعات رونماہوئے، ان خونین واقعات میں جہاں سرحد کے اُس پار مسلمانوں کا ہاتھ تھا وہیں سرحد کے اِس پار ہندوئوں کا ہاتھ تھا، جموںان خونریز واقعات سے محفوظ نہیں رہا، انگریز مُصنِف السٹرلیمب کی کتاب پڑھنے کی زحمت گوارا کریں تو پتہ چل جائے کہ کس طرح پونے تین لاکھ مسلمانوں کو جموں، ہماچل اور گرداس پور کے بلوائیوں نے مہاراجہ کی پولیس کی معاونت میںقتل کرکے لاشیں دریائوں کی نذر کردی۔
ان سارے واقعات اور معاملات جو آج کی تاریخ میں داستان پارینہ کی حیثیت رکھتے ہیں کو پشت از دیوار کرکے حال اور خوشگوار مستقبل کی ضمانت کی خاطر آگے بڑھنے کی بجائے ان واقعات کے چرنوں میں سجدہ ریز ہو کر ماحول کو پراگندہ بنانے کی کوشش کیا دانستہ اور مکروہ سیاسی عزائم اور نظریات کی سمت میں محسوس نہیں ہوتے؟ شیخ محمدعبداللہ الحاق کو یقینی بنانے کی سمت میں اپنا کردار ادانہ کرتے تو جموں وکشمیرکا معلوم نہیں کیا حشرہواہوتا، حالانکہ مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ جوں کا توں معاہدہ بھی کرلیاتھا اور مہاراجہ اور پاکستان کے جھنڈے ساتھ ساتھ بلڈنگوں پر لہراتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس تاریخی رول اور کردار کے باوجود شیخ محمدعبداللہ، اس کی نیشنل کانفرنس اور کشمیرکی آبادی کو پاکستان کا DNAقرار دینے کی مسلسل گندی ذہنیت اور فسطائیت پر مبنی سیاست کا چلن، کچھ تو شرم کرو، ۱۹۴۷ء…۱۹۶۵ء اور بعد کے کئی واقعات کے حوالہ سے غیر ملکی یلغاروں کے خلاف سینہ سپر ہوکر قربانیاں کشمیر نے دی، جموں کا کوئی کردارنہیں۔