اب جبکہ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ایک مرتبہ پھر دوٹوک الفاظ میں اپوزیشن اور عوام دونوں پر واضح کردیا ہے کہ انہیں عوام سے جو منڈیٹ ملا ہے وہ پانچ دن یا پانچ ہفتوں کیلئے نہیں بلکہ پورے پانچ سال کیلئے ہے، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہم نے عوام سے کیا وعدے کئے ہیں اور ہم ان وعدوں پر پورا اُتریں گے۔
وزیراعلیٰ باربار پانچ دن پانچ ہفتوں کی بات کیوں مسلسل طور سے دہرارہے ہیں یہ انہی کو معلوم ہے البتہ لوگ ہی اپنی بے صبری پر مصر ہیں جو غالباً نیشنل کانفرنس کی قیادت اور عمر کی قیادت میں حکومت کو پسند نہیں جبکہ بار بار اس کا تذکرہ کرکے یہ احساس ہوتاہے کہ حکومت عوام کی طرف سے خواہشات کی تکمیل کیلئے بار بار اظہار یا چاہت پر چڑجاتے ہیں۔بادی النظرمیں یہ اچھے اور مخلص حکمران کی نہ فطرت ہوسکتی ہے اور انداز فکر ۔ اگر عوام بے صبرا ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی اپنے درپیش معاملات کا طویل المدتی نہ سہی مگر کچھ فوری اور قلیل المدتی حل کیلئے کوشاں ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام گذشتہ کئی برسوں سے گوناگوں مسائل سے جھوج رہے ہیں، ان کی قوت استعداد اور قوت برداشت اب ہر گذرتے دن کے ساتھ جواب دیتی جارہی ہے۔ وہ محسوس کررہے ہیں کہ ان کی پیٹ کاد وزخ نہ بیانات اور نہ یقین دہانیوں کے حوالہ سے ٹھنڈا پڑرہا ہے اور نہ ہی اب ان کے اندر اتنا صبرباقی رہ گیا ہے کہ وہ مزید پانچ سال تک انتظار کریں اور پھر پانچ سال کے اختتام پر ایک نیا چنائو منشور کچھ نئے وعدوں کے ساتھ ان کے سامنے پیش کیاجائے جس کی حیثیت ایک اور لالی پف سے کچھ زیادہ نہیںہوگی۔
پانچ سال کی راگنی کا مسلسل الاپ منڈیٹ کی نفی تو نہیں لیکن انحراف ضرور ہے ۔ ہمیں اس بات کا احساس بھی ہے اور اعتراف بھی کہ تین چار ماہ کی حکومتی عمر معاملات کا حل تلاش کرنے کی سمت میں کسی طرح کے معیار کو مقرر کرنے کیلئے کافی نہیں البتہ یہ مدت معاملات کا حل تلاش کرنے کی سمت میں راستوں اور طریقہ کار کے تعین کیلئے بہت زیادہ ہے۔ اب تک کی اس مدت کے دوران حکومت نے کسی ایک بھی شعبے کے حوالہ سے کسی سمت کا تعین نہیں کیا ہے، کچھ معاملات بشمول ریزرویشن کے کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے لیکن ان پر بھی کچھ سنجیدہ حلقوں کی جانب سے سوالات کے انبار لگائے جارہے ہیں۔
مانا کہ اپوزیشن بیان بازی کا بار بار سہارا لے کر پوائنٹ اسکور کرنے کی دوڑ میں ہے اور اس طرح وہ عوام کی توجہ، جو کئی ایک حساس سیاسی، سماجی اور معاشرتی اشوز کے حوالوں سے حالیہ برسوں میں ہٹ چکی ہے، کو واپس اپنی طرف مبذول کرنے کی کوشش میںہے لیکن بیان بازی سے کہیں زیادہ اس بات کی عوامی اہمیت اور ضرورت ہے کہ اپوزیشن پہلے اپنے گھروں کی حالت کو درست کرے اور پھر عوام کے وسیع ترمفادات میں اگر آپسی الائنس یا بندھنوںمیں نہ بھی جڑ سکیں لیکن کم سے کم پروگرام اور لائحہ عمل مرتب کرنے کیلئے و ہ ایک میز پر تو بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن ان سے یہ بھی نہیں ہوپارہاہے ، بس تمام تر توجہ بیان بازی اور چیخ وپکار پر مرکوز کی جارہی ہے۔ اپوزیشن کے اس طرز عمل سے عوام کا نہ کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی لوگوں کا کوئی مسئلہ حل ہونے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔
اپوزیشن کے اس بکھرائو اور چیخ وپکار سے حکومت کو کوئی پریشانی نہیں ہے جبکہ عوام بھی اس چیخ وپکار سے متاثر نہیں ہورہی ہے۔ عوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا اور ان کی خواہشات اور احساسات کی ترجمانی کرنے کیلئے اپوزیشن کا کردار اہم تصور کیا جاتا ہے لیکن کشمیر اپوزیشن اس ضمن میں عوام کی خواہشات اوراُمیدوں کی کسوٹی پر نہیں اُتر پارہی ہے ۔ تنقید برائے تنقید اور مخالفت برائے مخالفت کے جذبے سے سیاست اور پارٹی کو چلانے کاراستہ اختیار کیا جائے تو ایسی اپوزیشن کا حشر ویسا ہی ہوتا ہے جس حشر سے فی الوقت ملکی سطح پر کانگریس دوچار ہے ۔
لوگ نتائج میں یقین رکھتے ہیں، ان کی اولین خواہش یہی رہتی ہے کہ جنہیں منڈیٹ تفویض کیاگیا ہے وہ عمل کی کسوٹی پر اُتر کر خود کو ثابت کریں۔ بے شک منڈیٹ پانچ سال کا ہے لیکن عوام کو درپیش مسائل اور سلگتے معاملات کے لئے انتظار کیلئے نہیں۔ یہ آمرانہ طرزعمل ہے ۔ عمر عبداللہ حکومت کی قیادت کررہے ہیں لیکن اس قیادت کو حاصل کرنے اور اس مقام کو پھر سے حاصل کرنے کیلئے عمر کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انہیں ذاتی طور سے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے، کن دشوار گذار مراحل کو عبور کرنا پڑا، ووٹروں کا اعتماد پھر سے حاصل کرنے کیلئے سر کی عزت تک کا واسطہ دینا پڑا اور عوام نے جب اس قدر بھاری منڈیٹ تفویض کردیا ہے تونہ صرف بحیثیت وزیرعلیٰ کے بلکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ایک اہم فیصلہ ساز کی حیثیت سے بھی ان پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہورہی ہیں، وعدوں کا ایفا ہر حالت اور ہر قیمت پر انکی پہلی ترجیح ہونی چاہئے، ایسے میں پانچ سال کی راگنی کا الاپ کو اب کچھ اور ہی معنی اور اصطلاحات میں لیا اور سمجھا جارہا ہے۔
عوام ہر گزنہیں چاہتی کہ عمر مرکز کے ساتھ ٹکرائو کا راستہ اختیار کرے بلکہ باہمی مفاہمت اور اشتراک عمل کا راستہ ،تدبر ،دانائی اور بھر پور حکیمانہ طرزعمل کے ساتھ اختیار کرکے جموں وکشمیرکے عوام کے مسائل اور معاملات کا حل تلاش کرنے کی سمت میں وہ سب کچھ حاصل کرے جو اس سمت میں درکار ہے۔ یہ مرکز کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے اس منڈیٹ کا احترام کرے اور جس جمہوری عمل اور آئین کی بالادستی کے ساتھ اپنی غیر مشروط وابستگی کا مظاہرہ لوگوں نے کیا جس کا اعتراف خود بھی کئی مرکزی رہنما اب تک بار بار کرچکے ہیں اس عوامی منڈیٹ کو کسی انانیت یا ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھانے یا چڑھنے نہ دیں۔
اس تعلق سے ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ کسی دیو انے کی بڑ نہیں، بلکہ یہ وقت اور سٹیٹ کی ضرورت ہے،ا س ضرورت کا تعلق اور واسطہ جموں وکشمیرکے لوگوں کے ماضی قریب سے ہے، جذبات اور وابستگی اس میں پیوست ہے، لہٰذا کوئی بھی مزید انحراف لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کرسکتا ہے جبکہ مسلسل انکار یاتاخیر عوام کے جذبات اور احساسات کو مجروح کرنے کا موجب بھی بن سکتی ہے۔