مہاورتاً کہا جاتا ہے کہ ’خدا اس کی مدد کرتا ہے جواپنی مدد آپ کرے‘ ۔ا گر واقعی بزرگوں اور ہمارے اسلاف کا قول یہی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس میں جہاں بھر کی دانائیاں ہیں، جو دانائیاں جس کی سمجھ میں آجائیں اور پھران کی روشنی میں اپنی زندگی اور منزلوں کا اہداف مقرر کرے وہ کامیاب اور نہ سمجھنے اور نہ عمل کرنے والا دُنیا میں بھی ذلیل وخوار اور آخرت بھی اس کیلئے کچھ اچھا نہیں !
بچپن میںہمارے بزرگ ہمیں کہا کرتے کہ ہمارا کشمیر پیر ور ہے، ان بزرگوں اور اولیائے کرام کا سایہ کشمیر اور اہل کشمیر پر سایہ فگن ہے اور یہ اُس وقت تک رہے گا جب تک ہم انفرادی سطح پر اور اجتماعی طور سے اپنے ان اولیائے کرام اور صوفی بزرگان کی تعلیمات کوا پناتے رہیں گے اور ان کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے ہم زندگی کے ہر شعبے میں سرخ رو ہوتے رہیں گے لیکن انحراف کیا تو زمین ہمارے قدموں کے نیچے سے کھسکتی رہیگی کچھ اس انداز سے کہ کھسکنے کا یہ عمل محسوس بھی نہیں ہوگا۔
آج کی تاریخ میں جو کشمیر ہماری دیکھتی آنکھوں کے سامنے اُبھرتا نظرآرہاہے وہ اُسی انحراف کی تائید کرتا نظرآرہا ہے ۔ کشمیر میں اب کیا نہیںہورہا ہے۔ نام نہاد اور خودساختہ فقرا، پیر کے لبادے میں خود کو عالم اور روحانی پیشوا جبکہ بہت سارے صوفی ازم یا صوفیت کے لبادے میں کچھ ایسے اسلام اور شریعت کو پیش بھی کررہے ہیں اور گردوپیش میں اپنے نام نہاد پیروکاروں کو ان غیر شرعی حرکتوں اور سرگرمیوں کو عملی جامہ پہنانے کی ترغیب اور تربیت بھی دے رہے ہیں جس سے یہ پیغام جارہا ہے کہ اسلام اور دین یہی ہے۔
مادہ پرستی کی اندھی دوڑ سماجی اور معاشرتی اقدار اور اس سے وابستہ روح کو پامال کرتی جارہی ہے، جھوٹ ،ریاکاری ،مکاری ، فریب، جعلسازی ، جوا، منشیات کا بڑھتا استعمال، رشوت اور بدعنوان طرزعمل، بے محنت کی دولت کی حصول کی سمت میں مہنگائی اور لوٹ ،ا دویات کے نام پر غیر موثر اور دونمبر کی ادویات کی مارکیٹ میں بھر مار، تعمیراتی شعبے کے حوالہ سے غیرمعیاری میٹریل کا استعمال ، ٹھیکوں کی الاٹمنٹ اور اجراء کے حوالہ سے کمیشن کی وصولیابی، مختلف نوعیت کے جرائم کا بڑھتا گراف ، معاشرتی سطح پر بڑھتی توہم پرستی، جبکہ سیاست کے حوالہ سے دھوکہ، گمراہی، جذبات اور احساسات کا استحصال اور جہاں بھر کی غلاظت اور غلامانہ یا جدید اصطلاح میں معذرت خواہانہ اپروچ اب کشمیرکے حوالہ سے غیر معروف نہیں۔
اس مخصوص منظرنامہ کے ہوتے اگر سوال کیاجارہاہے کہ کشمیراور کشمیری کہاں کھڑے ہیں اور اس مخصوص تناظرمیں وہ کیا رول اداکررہے ہیں تو جواب میں مایوسی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ تلخ ترین سچ یہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ فیصلہ سازی اور اپنے حال اور اپنے مستقبل کے مفادات اور معاملات کے حوالہ سے غیر حساس، غیر ذمہ دار اور بے اعتنا ہوتے جارہے ہیں، آبادی کے اندرسے کچھ طبقے ایسے بھی حالیہ برسوں کے دوران اُبھر کرسامنے آتے رہے جو عیاں اور بیان طریقوں سے غلامانہ اور ملازمانہ ذہنیت اور اپروچ کا راستہ اختیار کرکے اپنی قوم کے وسیع تر مفادات کی منافی کاموں اور اس حوالہ سے سرگرمیوں کی آبیاری اور معاونت کررہے ہیں جن کے سنگین مضمرات کے حامل نتائج آہستہ آہستہ اور کسی نہ کسی شکل وصورت میں سامنے آرہے ہیں۔
کشمیر کی ایک اور بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ملک کے کچھ طبقوں میںکشمیریوں کو بطور عفریت اور دہشت گرد کے پیش کیا جارہاہے جبکہ کنٹرول لائن کے اُس پار ادارے اور آبادی کے کچھ مخصوص طبقے کشمیریوں کواپنا ذرخرید غلام سمجھ کر ان پر اپنی حق ملکیت جتانے سے باز نہیں آرہے ہیں۔ کشمیر کی آبادی سے وابستہ ایک اور طبقہ مختلف طریقوں سے اپنے مخصوص مفادات کو آگے بڑھانے اور ان مخصوص مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی راہ میں کشمیر کی آبادی کی اکثریت کو بدنام بھی کررہاہے اور کردارکشی کو اپنا آبائی حق بھی سمجھ رہا ہے۔ اس طبقے کو کئی ایک حلقوں کی سرپرستی حاصل ہے اور یہ سرپرستی کرنے والے کون ہیں ان کی شناخت کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
کیا یہ سب کچھ کشمیرکا اوسط شہری اپنی کھلی آنکھوں سے نہیںدیکھ رہا ہے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اس سب سے بے اعتنا ہے اور اپنی دھن میں بدمست ہاتھی کی طرح دوڑتا ہی جارہا ہے؟ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے وہ اپنی اس دوڑ سے مطمئن اور خوش ہے۔ لیکن اُس وقت سے خدا کی پناہ جب یہ دوڑ اسے کسی ٹھوکر کے ساتھ زمین بوس کرکے رکھ دے ۔
اس سارے منظرنامہ پر میر واعظ کشمیر نے اگلے روز جس مخصوص انداز میں بیان کرکے اپنی گہری تشویشات کوزبان دی ہے اور جو تصویر کشی کی ہے ہم اُس حد تک جانے کی جرأت نہیںرکھتے اگر چہ میرواعظ کشمیرنے تلخ زمینی اور معاشرتی حقائق کو زبان دی ہے دوسروں کی طرح چشم پوشی نہیں کی ہے۔ البتہ ہمیں معلوم ہے کہ میرواعظ کی ان تلخ سچائیوں پر کچھ حلقے برہم ہوں گے اور مختلف طریقوں سے میرواعظ کے خلاف کوئی نہ کوئی محاذ کھڑا کرنے میںکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیںہونے دیں گے بالکل اُسی طرح جس طریقے سے پنڈت برادری کے ایک طبقے نے میرواعظ کی دہلی میں پنڈت برادری کے ایک طبقے کے ساتھ بات کی، انہیں واپس کشمیر آکر اپنی زندگی کے سفرکو آگے بڑھانے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ پہلے کی طرح دُکھ سکھ میں بھر پور شرکت کے ساتھ رہن سہن اختیار کرنے کی سمت میں ممکنہ اقدامات کے حوالہ سے مشاورت کا دائرہ مزید وسعت کرنے کی ضرورت پر زور دیالیکن دوسرا طبقہ اس سعی کو ہضم نہیں کرسکتا اورمیر واعظ کی مخالفت میںمیدان میں آگیا۔
اسی طرح جو لوگ کشمیر میں ان بدکاریوں، برائیوں ، منشیات ،سماجی برائیوں، کورپشن ،دین دُشمن سرگرمیوں وغیرہ کے تعلق سے سراپاملوث اور سرگرم ہیں وہ بھی ان تشویات پر پریشان ہونے کی بجائے زہر افشانی پر اُترنے سے باز نہیں رہینگے کیونکہ ان کے سروں پر کشمیر کے سماجی اور معاشرتی تانا بانا کو تتر بتر کرنے، پارہ پارہ کرنے، ناقابل تلافی نقصانات سے ہم کنار کرنے اور اپنی بدمستیوںاور خرافات کا تحفظ ہر ممکن سطح پر یقینی بنانے کا بھوت سوار ہے جواب سرچڑھ کر بول بھی رہا ہے۔ ان لوگوںکی پشت پر کئی اندرونی اور بیرورنی قوتیںہیں جو ان کی حوصلہ افزائی بھی کررہی ہیںاور انہیں مالی معاونت بھی حاصل ہورہی ہے۔ لہٰذا وہ بازنہیں آئیں گے۔
بہرحال اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے، اللہ چاہے تو اپنے کرم وفضل سے اس ساری حالت کو پلٹ کے رکھدے اور کشمیرکو واپس اُسی حال میں لائے جس حال کو اس کیلئے فطرت میں مقرر ہے لیکن اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلے اپنی حالت میںتبدیلی لانے کی سمت میں پہل کرے اور توبہ واستغفار کا راستہ اختیار کرے ۔ دوسرا کوئی راستہ نہیں !