انسان بے بس ہوتو بے بسی کے عالم میں زندہ رہنے کیلئے ہوا میں ہاتھ پیر مارنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا ہے، مشاہد ہ میں یہی بات آئی ہے البتہ بہت کم دل گردہ رکھنے والے ہوئے ہیں یا ہوتے ہیں جو ہمت نہیں ہارتے، طلاطم خیز موجوں، مخالفانہ باد صبا اور ہر طرح کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کنارے پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔
وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کے مشیر اور پارٹی سطح کے دست راست ناصر اسلم وانی کا ایک بیان میڈیا پر گشت کررہاہے جس میں اور باتوں کے علاوہ وہ اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ’ ’ہماری منتخبہ سرکار بے بس ہے ، ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، ابھی دہلی میں اعلیٰ سطح کی لااینڈ آرڈر کے حوالہ سے میٹنگ ہوئی اس میں وزیراعلیٰ کو شرکت کیلئے نہیں بلایاگیا……‘‘ناصر اسلم وانی کا حکومت کی بے بسی کے اس اعترافی بیان کا پس منظر وہ دو مخصوص واقعات ہیں جن میں سے ایک کا تعلق بلا ور میںمکھن دین نامی ایک گوجر کی پولیس حراست کے دوران ٹارچر کے بعد رہائی اور گھر پہنچتے ہی خود کشی سے ہے جبکہ دوسرے معاملے کا تعلق سوپور میں ایک ٹرک ڈرائیور‘ وسیم احمد میر کی فوج کے ہاتھوں ٹرک پر فائرنگ کے نتیجہ میں ہوئی ہلاکت سے ہے۔
ناصر اسلم میڈیا سے بات کررہے تھے۔ ایک سوال ان سے یہ بھی کیا گیا کہ کولگام میں مبینہ دہشت گردوں کے ہاتھوں سابق فوجی کی ہلاکت اور گھر کے دو افراد کے زخمی ہونے کے واقعہ کے ردعمل میں کشمیرکے طول وارض میں چھاپے مارکر زائد از پانچ سو شہریوں کو حراست میں لیاگیا، کیایہ سبھی گرفتار شہری سابق فوجی کی ہلاکت میں ملوث ہیں، اور انہیں ملوث قرار دے کر گرفتاریاں عمل میںلائی گئی جبکہ واقعہ میں ملوث ایک یا ایک سے زیادہ کچھ ذمہ دار ہوسکتے ہیں لیکن بلاور اور سوپور میں پیش آمدہ واقعات کے ذمہ دار کون ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیںکی گئی کے جواب میں ناصر اسلم کا کہنا تھاکہ یہ معاملہ لیفٹیننٹ گورنر کے حدا ختیارات اور دائرہ کار میںہے انہی سے جواب پوچھ لیاجائے جبکہ ایسے واقعات جب پیش آتے ہیں تو آپ اپنی آنکھوں سے خود دیکھنے کے باوجود ہم سے جواب مانگتے ہیں۔
ناصر اسلم نے اختیارات اور فیصلہ سازی کے حوالہ سے عمرکی قیادت والی سرکار کی بے بسی کا اعتراف کرکے کوئی پنڈورا بکس نہیں کھولا بلکہ یہی زمینی حقیقت ہے اور اس حقیقت کا حل ریاستی درجہ کی بحالی میںمضمر بتایا جاتا ہے ۔ ان دونوں بلکہ تینوں حالیہ ایا م میں پیش آمدہ افسوسناک اور شرمناک واقعات پر عوام برہم ہیں، غم وغصہ میں ہیں اور پولیس، فورسز اور دوسرے ذمہ دار اور فیصلہ ساز اداروں کے طرز اپروچ کو لے کر جن باتوں کو زبان دے رہے ہیں وہ بیان کرنا مناسب نہیں البتہ اس پر اکتفا ضرور کیاجاسکتا ہے کہ ماضی قریب میں بھی اسی نوعیت کی سفاکیت اور جبروقہر سے عبارت واقعات اور معاملات پیش آتے رہے ہیںجن واقعات کے ردعمل میں دہلی اور سرینگر کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی جاتے رہے ، لیکن وقت گذرتے حالات اور طرزعمل میںبہتری کو دیکھتے ہوئے عوام اپنی ان تلخیوں کو بہتر حال اور خوشحال مستقبل کی خواہش اور خوابوں کی خاطر حاشیہ پر رکھ کر آگے قدم بڑھانے کے راستوں پر ہولئے لیکن اچانک وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سوا ب بھی ہے،کے مصداق انداز فکر اور اپروچ وہی ہے جوماضی کا طرہ ٔ امتیاز رہا ہے یعنی ڈنڈا اورگولی۔
حکومت نے بھی ان سبھی معاملات پر اپنی علیحدہ تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے، پولیس نے بھی بلاور کے شرمناک اور روح فرسا معاملہ پر الگ سے محکمانہ تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے اور ایک اعلیٰ آفیسر کوتحقیقات کیلئے نامزد کیا ہے ۔ لیکن کیا پولیس جو اس افسوس ناک معاملہ میںبقول مقامی آبادی اور لواحقین کے سراپا ملوث اور ملزم کی حیثیت رکھتی ہے انصاف کے تمام تر تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لواحقین کے ساتھ انصاف کرے گی اور واقعہ میں پولیس اسٹیشن میں تعینات ملازمین کو ملزم قرار دینے کا راستہ اختیار کرے گی اس پر نگاہ مرکوز رہے گی۔
البتہ مقامی ممبر اسمبلی اس حوالہ سے اہم رول ادا کررہے ہیں، انہوںنے دوٹوک الفاظ میں بتادیا ہے کہ تحقیقات انصاف اور قانون کے تمام تر تقاضوں کی روشنی میں ہونا چاہئے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وہ مقامی آبادی کے ساتھ سڑک پر بیٹھے نظرآئیں گے۔ اسی طرح سوپور کے واقعہ کو لے کر مقامی آبادی سراپا احتجاج ہے اور وہ اس واقعہ کے تعلق سے فوج اور پولیس کے بیانات کو چیلنج کررہے ہیں ۔ اگر گولی ٹرک کا ۲۳؍ کلومیٹر تعاقب کرنے کے بعد ٹائر پر چلائی گئی تو ڈرائیور کی موت کیسے ہوئی؟مقامی لوگ اس واقعہ کو ماضی قریب کے اُس دور سے بھی مشابہہ قرار دے رہے ہیں جس دور کو کیچ اینڈ کل سے آج بھی یا دکیا جارہا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں اسی نوعیت کے واقعات کی تحقیقات ہوتی رہی ہے لیکن کسی ملوث کو ماورائے قانون کا م کرنے کے جرم میں کسی طرح کے سزا کا مستحق قرار نہیں دیا گیا اور نہ اس نوعیت کے واقعات کو انسانی حقوق کی پامالی تسلیم کیاجاتارہاہے۔ اس کے برعکس مختلف لنگڑی دلائل کا سہارا لے کر معاملات کو نہ صرف داخل دفتر کیا جاتارہا ہے بلکہ ملوثین کو مختلف قوانین کے تحت معصوم اور بے گناہ قرار دے کر ان کے جرائم کو تحفظ فراہم کیاجاتارہا ہے۔ کشمیرمیں زمینی سطح پر اس قسم کے اپروچ اور انداز فکر نے بھی عدم سیاسی استحکام اور عوامی سطح پر بے چینی کو بڑھاوا دینے کی سمت میں اہم کرداراداکیا ہے۔
جموں وکشمیر کے حوالہ سے فی الوقت تمام اختیارات اور فیصلہ سازی کے معاملات براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے ہاتھ میں ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ کو اچھی طرح سے یہ علمیت اور جانکاری حاصل ہے کہ کن مشکل ترین اور صبرآزما مراحل کو عبور کرتے کرتے کشمیر میں کچھ حد تک سیاسی استحکام اور امن قائم ہوا اور لوگوں کی جانب سے کس والہانہ طریقے اور اپروچ کے ساتھ حکومت کی جانب سے اُٹھائے جارہے اقدامات کو کامیابی کے حوالہ سے منطقی انجام تک پہنچانے کی سمت میں اپنا بھر پور تعاون اور اشتراک کیا۔ لیکن اس نوعیت کے ناخوشگوار واقعات اب تک حاصل کامیابیوں پر پانی پھیرنے کی بھر پور گنجائش رکھتے ہیں جبکہ وہ قوتیں اور عنصر جو کشمیرمیں استحکام ، ترقی اور امن نہیں چاہتی ایسے ناخوشگوار اور دلخراش واقعات کو اپنے لئے آکسیجن تصور کررہی ہیں۔ آکسیجن کی اس فراہمی کی روک تھام مرکز کی ذمہ داری ہے اور جہاں تک یوٹی حکومت کی بے بسی کے اعتراف کا تعلق ہے تو لوگ بھر پور توجہ کے ساتھ اپنی منتخبہ حکومت کی اس بے بسی کو دیکھ بھی رہے ہیں اور محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے انداز فکر اور اپروچ کا بھی لمحہ بہ لمحہ مشاہدہ کرتے جارہے ہیں۔