جموں//
نیشنل کانفرنس کے صدر ‘ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے مرکزی حکومت کے اس دعوے پر سوال اٹھایا کہ جموں و کشمیر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے اور کہا کہ اگر عسکریت پسندی ختم ہوگئی ہے تو کولگام دہشت گردانہ حملے جیسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔
فاروق عبداللہ نے دہلی انتخابات میں جیت کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس بات پر زور دیا کہ فیصلہ ملک کے عوام کا ہے، نہ کہ ان کے یا ان کی ساتھی سکینہ ایتو کا۔
پیر کے روز کولگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں ایک سابق فوجی ہلاک اور اس کی بیوی سمیت دو خواتین زخمی ہوگئی تھیں، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی نے عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے حکومت کے دعوے پر سوال اٹھایا۔
ڈاکٹر فاروق نے کہا’’ان لوگوں سے پوچھیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عسکریت پسندی ختم ہو گئی ہے۔ اگر اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو ان سے پوچھیں کہ ان کا دعوی کہاں گیا ہے۔ ہر روز وہ پارلیمنٹ میں، پارلیمنٹ کے باہر، پہاڑوں پر اور ہر جگہ بیانات دیتے ہیں کہ عسکریت پسندی ختم ہو گئی ہے‘‘۔
فاروق عبداللہ نے یہاں ایک تقریب کے موقع پر نامہ نگاروں سے کہا کہ اگر عسکریت پسندی ختم ہو گئی ہے تو اس طرح کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔
این سی صدر نے دہلی انتخابات، انڈیا بلاک، ریاست کا درجہ بحال کرنے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) سے متعلق خدشات سمیت سیاسی اور سماجی مسائل پر کئی سوالوں کا جواب دیا۔
آئندہ دہلی اسمبلی انتخابات اور بی جے پی کی جیت کے دعووں کے بارے میں فاروق عبداللہ چاہتے تھے کہ سبھی بدھ کو ہونے والے انتخابات کا انتظار کریں۔انہوں نے کہا’’انہوں (بی جے پی) نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ (جموں و کشمیر میں) اقتدار میں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح یا اس طرح (جموں و کشمیر میں) ایک سہ رخی اسمبلی ہوگی۔آج ان کے دعوے کہاں گئے؟ ایسا لگتا ہے کہ اب انہیں خاموش کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس ملک کے عوام نے کیا ہے نہ کہ فاروق عبداللہ یا سکینہ ایتو نے‘‘۔
دہلی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) جیسے انڈیا بلاک کے شراکت داروں کے الگ الگ انتخاب لڑنے سے بی جے پی کے فائدہ اٹھانے کے امکانات کے بارے میں فاروق عبداللہ نے اتحاد پر اس کے اثرات کے بارے میں قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا’’اگر میں بھگوان ہوتا تو میں اس کی پیش گوئی کر سکتا تھا۔ لیکن میں ایک سادہ آدمی ہوں۔مجھے کیا پتہ کہ کون آئے گا اور کون نہیں آئے گا؟ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ہم یہاں (جموں و کشمیر میں) آئیں گے یا نہیں‘‘۔
فاروق عبداللہ نے انڈیا بلاک پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اللہ کے فضل سے آگے بڑھ رہا ہے اور مخالفت کے باوجود آگے بڑھتا رہے گا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ قومی سطح پر اتحادیوں کو متحد کرنے کے لئے پہل کریں گے ، فاروق عبداللہ نے اپنے کردار کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور کہا’’میرے پاس وہ صلاحیت نہیں ہے ، اور میں وہ شخص نہیں ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم مل کر اس ملک کیلئے کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔ منقسم، ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے‘‘۔
جموں کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کرنے کے بارے میںفاروق عبداللہ نے اپنے موقف کا اعادہ کیا اور امید ظاہر کی کہ اسے بحال کیا جائے گا۔
فاروق عبداللہ نے کہا ’’انشاء اللہ اسے بحال کر دیا جائے گا۔ اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن یہ ضرور ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں ایک جادوگر ہوتا تو میں کہتا کہ اب ایسا ہوگا لیکن میں ایسا نہیں ہوں۔
ای وی ایم کے بارے میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی تشویش کا جواب دیتے ہوئے فاروق عبداللہ نے میڈیا کی آزادی پر توجہ مرکوز کی اور مرکزی حکومت پر تنقید کرنے کی پریس کی صلاحیت پر سوال ان کاکہنا تھا’’آپ وہ سوالات پوچھتے ہیں جو آپ کو پسند ہیں۔آپ ہمارے کتنے جوابات شائع کرتے ہیں‘‘؟
این سی صدر نے کہا’’کیا آپ مرکزی حکومت پر تنقید کر سکتے ہیں؟ آپ صرف اپوزیشن پر تنقید کرتے ہیں۔ آپ اور آپ کا اخبار تباہ ہو جائے گا۔ آپ کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ آپ انہیں مکھن لگاتے رہتے ہیں‘‘۔
کووڈ ۱۹ویکسین کی طرح کینسر ویکسین کے امکان کے بارے میں این سی صدر نے کوویڈ ۱۹ ویکسین کے رول آؤٹ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کووڈ۱۹ ویکسین بغیر کسی ٹرائل کے لگائی گئی تھی۔
فاروق عبداللہ کاکہنا تھا’’آج ہم اس کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔ بہت سے نوجوان دل کے دورے اور دیگر مسائل سے مر رہے ہیں، اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ویکسین ذمہ دار ہے۔ ہم اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ وہ ذمہ دار ہے یا نہیں‘‘۔
این سی صدر نے کینسر کی ویکسین کی تیاری کی پرزور وکالت کی اور اس پر مکمل تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کینسر کی ویکسین تیار کرنا چاہتے ہیں تو اس پر تحقیق کی جانی چاہیے۔ کون کہتا ہے کہ ویکسین تیار نہیں کی جانی چاہئے؟
ان کاکہنا تھا’’لیکن اس میں کووڈ ویکسین کی طرح جلد بازی نہیں کی جانی چاہیے۔ میں نے کئی ٹیکے بھی لیے ہیں۔ ‘‘