میر واعظ کشمیر مولوی محمدعمرفاروق گذشتہ کچھ دنوں سے دہلی میں خیمہ زن ہیں۔ اپنے قیام کے دوران میرواعظ نے متعدد مذہبی علماء سے بات کی، کشمیری پنڈتوں کے ایک بڑے وفد کے ساتھ بھی ان کے ماضی، حال اور مستقبل کے تعلق سے تبادلہ خیالات کئے، کشمیرمیں لوگوں کو بحیثیت مجموعی جن سنگین نوعیت کے معاملات کا سامنا ہے ان کے حوالہ سے اپنے خیالات اور خواہشات کا برملااظہار کیا اور اس ضمن میں کچھ تجاویز بھی پیش کیں، وقف ترمیمی بل کے تعلق سے بھی میراعظ اپنی قیادت میں علماکے وفد کے ساتھ متعلقہ اراکین کے ساتھ ملاقی ہوئے اور اس معاملے پر ایک مفصل میمورنڈم پیش کیا، یہ ساری مصروفیات اور ملاقاتیں اپنی جگہ لیکن سوال یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ان مصروفیات اور رابطوں کا کوئی محاصل ہاتھ آئے گا اس بارے میں فی الحال سوالیہ ہی نظرآرہے ہیں۔
کشمیر سے ترک سکونت کرچکے پنڈت برادری کی گھر واپسی کے تعلق سے میرواعظ نے ایک بڑے پنڈت وفد کے ساتھ تبادلہ خیالات کئے جس دوران آپسی مشاورت بھی ہوئی اور کچھ تجاویز بھی اُبھرکر سامنے آئی۔ فیصلہ کیاگیا کہ میرواعظ کی قیادت میں ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس مخصوص اشو کے مختلف پہلوئوں کا دیانتدارانہ اور مخلصانہ تجزیہ کرکے واپسی کے لئے روڈ میپ کی نشاندہی کرے گی۔ پنڈت برادری کے وفد نے میر واعظ کی کاوشوں کی سراہنا کی اور ان کی کوششوں کو وقت کا تقاضہ قرار دیا۔
کشمیرمیں سنجیدہ فکر اور حساس عوامی حلقوں کی جانب سے میرواعظ کشمیر اور پنڈت برادری کے وفد کی جانب سے اس رابطہ اور آپسی مشاورت کا خیر مقدم کیا جارہاہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ یہ کاوشیں ثمر آور ثابت ہوں گی۔ لیکن حیرت انگیز طور سے پنڈت برادری کے ایک دوسرے حلقے کی جانب سے جو حرکت مشاہدے میں آئی اس کا بین السطور جائزہ لینے پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس حلقے کو میرواعظ اور اپنی برادری سے وابستہ وفد کی یہ آپسی مشاورت اور گھر واپسی کے حوالہ سے جن خیالات کو زبان دی گئی وہ ان کے ایجنڈا اور مشن کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ یہی وہ کچھ مخصوص ذہنیت کے حامل افراد ہیں جو نہیں چاہتے کہ ان کی برادری اپنے گھروں کو واپس جائے اور وطن عزیز میں باوقار زندگی بسر کرے۔ یہی وہ حقیر مفادات اور مخصوص فکرکا ان کا ایجنڈا ہے جو پنڈتوں کی گھروں کو واپسی کی راہ میں حائل ہوتی رہی ہے۔
میرواعظ نے کشمیر کو درپیش زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے معاملات کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر ۲۲؍کروڑ مسلم آبادی کو درپیش معاملات اور مسائل پر خاص طور سے مذہبی، سیاسی راہنمائوں اور سول سوسائٹی سے وابستہ شخصیات کے ساتھ بھی بات کی اوران کا حل تلاش کرنے کی سمت میں مشاورت کی۔ خاص طور سے وقف ترمیمی بل کے حوالہ سے بات ہوئی۔اس بات کو محسوس کیاجارہا ہے کہ اگر چہ وقف میں کچھ خامیاں موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ مسلمانوں کا شرعی معاملہ ہے اس میں مداخلت یا ترمیم وتجدید دینی معاملات میںمداخلت ہے جس کے نتیجہ میں بہت سارے اختلافی معاملات جنم پاجائینگے۔
ڈاکٹر عمرفاروق نے اس تعلق سے پارلیمانی کمیٹی کے طرزعمل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ یکطرفہ فیصلوں کو لینے اورمسلط کرنے کی اپنی روش اور خوگریت سے اجتناب کریں۔ اس اہم اشو پر مشاورت کادائرہ وسیع کرنے کی بھی ان کی تجویز ہے اور میرواعظ ملکی سطح پر اس تعلق سے رائے عامہ کو منظم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
وقف زمینوں کے بارے میں سرکاری سطح پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک بھرمیں وقف کے پاس سب سے زیادہ زمین کی ملکیت ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اڈیسہ کے ۱۳؍مندروں کے پاس جس اراضی کی ملکیت ہے وہ کل ہندسطح پر وقف اراضی کے برعکس ۴۰؍ فیصد زیادہ ہے۔اڈیسہ کے ان ۱۳؍مندروں کے پاس ۴۰۔۹؍ لاکھ ہیکڑ ملکیتی اراضی ہے۔ تامل ناڈو میں مندروں کی ملکیت میں ۷۸۔۴؍لاکھ ہیکڑ ، آندھرا پردیش میں ۴؍لاکھ ہیکڑ جبکہ تلنگانہ میں ۸۷؍ ہزار ہیکڑ ملکیتی اراضی ہے۔ لیکن ملک کے ان مندروں کی ملکیتی اراضیوں پرکوئی سوال نہیں کیاجارہاہے ، نہ وقف کی طرز پر کوئی ترمیم پیش کی جارہی ہے اور نہ ہی وقف ترمیمی بل کی طرز پر کسی مسلمان عالم یا مسلمان لیڈر کو بحیثیت رکن نامزد کرنے کی تجویز پیش کی جارہی ہے۔
میر واعظ اشاروں اشاروں میں اس امر پر برہمی کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ کشمیر کی صورتحال کے تعلق سے کشمیرکاکوئی متفقہ نریٹو نہیں ہے ۔ خوفزدگی کا عالم ہے ۔ میڈیا بھی ڈرا ڈرا ہے۔ انہوںنے ایک بار پھر اپنے اس خیال کو زبان دی ہے کہ کب تک کشمیرکی پریشان اور لہو رنگ صورتحال کو نسل درنسل منتقل کیاجاتا رہے گا۔ ہندوستان،پاکستان اور کشمیر کو آپس میں مل بیٹھ کر اس کا کوئی باوقار حل تلاش کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں میرواعظ نے سابق وزراء اعظموں…اٹل بہاری واجپئی ، ڈاکٹرمن موہن سنگھ اور لال کرشن ایڈوانی کا پاکستانی قیادت سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ اپنی قیادت میں کشمیری وفد کی کچھ ملاقاتوں کا بھی حوالہ دیا۔ انہوںنے برملا طور پر یہ واضح کردیا کہ ۱۹۴۷ء سے اب تک کشمیرکی تین، چار نسلیں فنا ہوچکی ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ پر اس خونین عمل پر روک لگانی ہوگی۔
ڈاکٹر عمرفاروق کی ان سرگرمیوں کے حوالہ سے یقینا کچھ حلقے تشویش میں مبتلا ہوں گے۔اپنی تشویشات کو زبان تو نہیں دیں گے البتہ پراکسی کے راستے اختیار کرکے سبوتاژ کی اپنی روش اور خصلتوں سے بازنہیں آئیں گے۔ اسی طرح سرحد کے اُس پار بھی سوشل میڈیا کا ایک مخصوص ذہنیت اور فکر کا حصہ مولوی محمد عمر فاروق کی ان سرگرمیوں اور مشاورتوں کے عمل کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ کچھ ایک نے تو یہاں تک دعویٰ کردیا ہے کہ میرواعظ کا دہلی کے ساتھ رابطہ قریب تر ہوتا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ میرواعظ آنے والے ایام میں کشمیر کی سیاسی اُفق پر کوئی اہم کردار اداکرنے کیلئے خود کو پوزیشن کررہے ہیں۔
سرحد کے اِس پار اور سرحد کے اُس پار کشمیر تعلق سے بہت ساری منفی اور منافقانہ سوچ رکھنے والی قوتوں کی کوئی کمی نہ ماضی، ماضی قریب میں تھی اورنہ حال میں ہے اور نہ مستقبل کے حوالہ سے ہوگی۔ کشمیر کی یہ سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ کشمیرنشین جو کوئی شخصیت یا لیڈر کشمیراور کشمیری عوام کے روشن اور تابناک حال اور مستقبل کیلئے بات کرتا ہے تو اس کو مخصوص ایجنڈا کے راستے کا پتھر قرار دے کر ہٹادیاجاتاہے۔ پراکسی وار اسی مخصوص ایجنڈا کا تسلسل ہے اور یکطرفہ فیصلوں کی روش بھی اسی ایجنڈا کا ایک اور بازو ہے۔
۔۔۔