منشیات کے دھندے اور سمگلنگ میں ملوث افراد اور گروہوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ ان کے اثاثوں کی ضبطی بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔ بینک کھاتوں کو بھی منجمد کیاجارہاہے۔ منشیات کی سمگلنگ ، کھپت اور خریدوفروخت کے نت نئے راستوں کو بھی کھو جا جارہاہے لیکن ان سارے اقدامات کے باوجود یہ وبا ، جو اب ایک لعنت بن چکی ہے قابو میں نہیں آرہی ہے۔ جبکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابھی تک اس دھندے میں ملوث افراد یا گروہوں سے وابستہ کو ئی بڑا سرغنہ ہاتھ نہیں آسکا ہے۔
اس حوالہ سے جو اعداد وشمارات ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں اور بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کیلئے باعث تشویش ہیں۔سب سے حیران کن اور پریشان کن اشو جوا س حوالہ سے اب تک سامنے آیا ہے یہ ہے کہ خاکی وردی میں ملبوس کچھ مخصوص ذہنیت کے سرکاری اہلکار ملوث پائے گئے ہیں جن کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔ کچھ حلقے تو اب کشمیر کو اُڑتا پنجاب کے بعد اُڑتا کشمیر سے موسوم کررہے ہیں۔
اگر چہ اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ منشیات کی بھاری کھیپ سرحد کے اُس پار سے مختلف طریقوں سے سمگل کرکے جموںوکشمیر کے بازاروں تک پہنچائی جارہی ہے لیکن سڑک کے راستے پنجاب اور چند دوسری ریاستوں سے بھی سپلائی کا ایک مکمل نیٹ ورک کے بارے میں دعویٰ کیاجارہاہے موجود ہے۔ اوراب کورئیر سروسز کی خدمات بھی منشیات کی سمگلنگ کیلئے حاصل کی جارہی ہیں، اس حوالہ سے ابھی چند گھنٹے قبل ایک بڑی کھیپ ضبط کرلی گئی ہے۔
دعویٰ کیاجارہاہے کہ افغانستان کی سرزمین سے زائد از ۸۰؍فیصد منشیات کی پیداوار حاصل ہورہی ہے۔ اس منشیات کی سمگلنگ اور فروخت سے حاصل ہورہی آمدنی افغانستان کے مختلف مسلح جرگوں سے وابستہ لوگ جواب اداروں کی شکل میں اُبھر کرسامنے آچکے ہیں اپنی روزمرہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوںپر صرف کررہے ہیں۔اگر چہ خود افغانستان کے کچھ مخصوص صوبوں اور علاقوں میں بھی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد اس لت میں مبتلا ہوچکی ہے اور بہت سارے ڈی ایڈکشن مراکزمیں زیر علاج بھی ہیں لیکن یہ وبا اس ملک میں یونہی ختم نہیں ہوگی کیونکہ یہ افغان طالبان کی ذرائع آمدنی کا ایک بہت بڑا وسیلہ بن چکا ہے ۔ اور جب تک بے ربط اور ٹرگر ہپی طالبان افغانستان میں بحیثیت حاکم اعلیٰ برقراررہیں گے دُنیا کے بہت سارے خطے نہ صرف ان کی سرپرستی میں دہشت گردی کا شکار ہوتے رہینگے بلکہ منشیات کی کھپت بھی بے قابو ہی رہے گی۔
جموںوکشمیر کو کیوں منشیات کے بازار میں تبدیل کردیاگیا، وہ کون سے حالات ہیں جن کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے منشیات کے سمگلروں اور سودا گروں نے کشمیرکی نوجوان نسل کو خاص طور سے نشانہ بنالیا اور اس میںکامیابی بھی حاصل کرلی ہے وہ ایک الگ موضوع ہے لیکن فی الحال کشمیر کی نوجوان نسل کا ایک اچھا خاصہ حصہ بدقسمتی سے منشیات کی لت میں مبتلا ہے اور اپنی ذہنی صلاحیت اور جسمانی توانائی سے بڑی سبک رفتاری سے ہاتھ دھوتا جارہا ہے۔ یہ ان کا انفرادی نقصان نہیں بلکہ یہ نقصان کشمیرکے معاشرے کا ہے اور سٹیٹ کا ہے اور جب ہم اس ساری بدقسمت صورتحال کا گہرائی سے غور کرتے ہیںتو ممکنہ منفی اثرات اور بھیانک صورت میں برآمد ہونے والے نتائج کا تصور ہی لرزہ طاری کررہاہے۔
بے شک ہمیں یقین دلایاجارہاہے کہ منشیات کی کھپت اور سمگلنگ پر قابو پانے کیلئے سخت گیرانہ اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن صرف گذرے برس کے دوران جس مقدار اور حجم میں مختلف اقسام کی منشیات ضبط کرنے کے دعویٰ سامنے آتے رہے ان کے ہوتے یہ احساس از خود پیدا ہورہا ہے کہ ان اقدامات کا سمگلروں کی سرگرمیوں پر کوئی خاص اثر نہیںپڑرہاہے۔ جو لوگ باالخصوص سرحد کے اِس پار سمگلروں کی معاونت کررہے ہیں اور جن کی عملی معاونت کے بغیر اتنی بڑی مقدار میں منشیات کی سمگلنگ اور بازاروں تک رسائی ممکن نہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سمگلر اور دھندے میں ملوث جو بھی ہیں وہ اکیلے نہیں بلکہ زمینی سطح پر ان کی سرگرمیوں کی سہولت کاری کی جارہی ہے۔
یہی سہولت کاری اس لعنت اور وباء کی اصل جڑہے۔ جب تک اس بُنیادی جڑ کو اُکھاڑ کرنہیں رکھا جاسکتا ہے یہ لعنت پھیلتی جائیگی جبکہ دھندے میںملوث کارندے نئے نئے شکار تلاش کرتے رہیں گے۔ احتیاطی اقدام کے طور پر ضروری بن رہا ہے کہ جموں وکشمیر کے تمام تعلیمی اداروں کے کم سے کم دو کلو میٹر حدود میں کسی بھی خانچے والے کو ریڈہ ؍دکان سجانے کی نہ اجازت دی جانی چاہئے اور نہ ہی کسی طرح کی سہولیت۔ والدین اپنے بچوں پر کڑی نگرانی کی عادت بنالیں نہ اس حوالہ سے کسی نرم گوشہ کو پالنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔
جن ملوثین کے اثاثے اور بینک کھاتے سر بہ مہر کئے جاچکے ہیں ان کو وسائل میں تبدیل کرکے ڈی ایڈیکشن مراکز کے قیام کی سمت میں بروئے کار لانے کی پالیسی یا طریقہ کار وقت کا اب تقاضہ بن چکا ہے جبکہ وہ کھیت جن کو مختلف نوعیت کی منشیات کی فصل اور پیداوار کیلئے استعمال میںلایا جارہاہے اُس ساری اراضی کو بھی ضبط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے عبرت حاصل کرسکیں اس حوالہ سے نارکوٹک ایکٹ کو مزیدسخت تر بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اس سارے تناظرمیں ایک خوش آئند بات یہ سامنے آئی ہے کہ منشیات کی لت میں مبتلا تقریباً ۱۷؍لاکھ افراد کو چھٹکارا دلایاگیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایک حالیہ اجلاس میں ممبر پارلیمنٹ آغاروح اللہ کے ایک سوال کے جواب میں سرکاری طور پر بتایاگیا کہ ۲۰۱۸ء سے شروع نشہ مکت تحریک پر عملدرآمد کے نتیجہ میں ۸؍ لاکھ نوجوان اور ۹؍لاکھ خواتین کا علاج مکمل کرلیاگیا ہے جبکہ سال ۲۴۔۲۰۲۳ء کے دوران ۳۱۰۰۰؍ افراد جو لت میں مبتلا تھے کا علاج کیاگیا اس سوال کے جواب کے ایک اور حصے میں بتایاگیا کہ ۳۵۴۰۰۰؍افراد شراب نوشی کرتے ہیں جبکہ ۵۱۰۰۰ا؍افیون کے استعمال میں مبتلا پائے گئے ہیں۔
جواقدامات ہاتھ میں لئے گئے ہیں ان کا احاطہ کیاجائے تو اعداد وشمارات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سال ۲۰۲۱ء سے سال ۲۰۲۴ء کے اختتام تک بحیثیت مجموعی ۶۵۶۲؍معاملات درج کئے گئے جبکہ ان معاملات میں ملوث سمگلروں کی تعداد ۸۴۲۴؍ ہے جن کی گرفتاریاں عمل میںلائی جاچکی ہیں۔ معاملہ سنگین ہے اور اس سنگینی سے نمٹنے کیلئے سنگین اقدامات اور سخت گیرانہ فیصلے عوام کے مجموعی فلاح اور بہبود اور وسیع تر مفادات کے تعلق سے ناگزیر بن چکے ہیں ۔ ملوث سمگلر پھانسی کے مستحق ہیں نہ کہ کسی رئو رعایت کے ۔