پاکستان کا سیاسی اونٹ ہرطلوع سورج کے ساتھ ایک نئی سے نئی کروٹ بدلتا رہتا ہے اور ہر بدلتی کروٹ ایک نئے رُخ کے ساتھ نظرآتی ہے۔ سیاسی منظرنامہ ہرگزرتے دن کے ساتھ گہن زدہ ہوتا جارہا ہے، آج ایک سیاسی قبیلہ کورپشن، بدعنوانیوں اور دولت کی لوٹ کے مبینہ الزامات یا سیاسی مصلحتوں کے مطیع دعوئوں کی آڑ میں قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کیلئے منتخب کیا جارہا ہے تو سیاسی منظرنامہ ہر کسی نئی کروٹ کے آثار مطلع پر نمودار ہوتے ہی دوسرے سیاسی قبیلے کو پہلے سیاسی قبیلے کی جگہ لینے کیلئے منتخب کیاجارہاہے۔ پاکستان کا یہ سیاسی نظارہ اس کے یوم ولادت کے ساتھ ہی جنم پاگیا لیکن ۷۷؍سال گذرنے کے باوجود اور ان ۷۷؍ برسوں کے دوران ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سبک رفتاری کیساتھ ہوتی رہی تبدیلیوں اور اُتار چڑھائو سے ایک ذرہ بھر بھی سبق یا عبرت حاصل نہ کرنے کی روایت یا دوسرے الفاظ میں خوگریت سیاست اور طرزعمل کے حوالہ سے اساس تصور کیاجارہا ہے ۔ یہی انداز فکر اور اپروچ پاکستان کے عدم سیاسی استحکام اور اس کے بطن سے پیدا ہوتے جارہے مضمرات کے حوالہ سے بُنیادی خیال کئے جارہے ہیں ۔
بہرحال پاکستان کے اس مخصوص انداز فکر اور طرزعمل سے اس کے کچھ ہمسایے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ کشمیرکا سیاسی اور مذہبی حوالہ سے جو کچھ منظر پیش کرتا آرہا ہے وہ اگر چہ مختلف ہے لیکن کچھ ایک حوالوں سے سرحد کے اُس پار کے انداز فکر اور اپروچ کے بہت بہت قریب بلکہ مشابہت بھی رکھتا ہے۔ مذہبی معاملات کے تعلق سے سرحد کے اُس پار مختلف مسلکوں سے وابستہ علماء اور مولویوں نے جو جنگ آپس میں چھیڑ رکھی ہے وہ نہ صرف آپسی تشدد، منافرت، فرقہ واریت اور مسلکی تنازعات پر منتج ہوتا چلا آرہا ہے بلکہ جو جنگ اُمت مسلمہ کیلئے عموماً اور اسلام اور اسلامی نظریات کیلئے خصوصی طور سے نقصان دہ بنتا جارہا ہے وہ غیر اسلامی فرقوں اور طبقوں میں مسلمانوں اور اسلام کے تئیں منفی تاثرات اور شبیہ گھر کرتی جارہی ہے۔ لیکن مسلکی فسادات میں ملوث ان نام نہاد مولویوں، خطیبوں اور اماموں کو اپنی ان حماقتوں اور بے ہودگیوں کا ذرہ بھر بھی نہ احساس ہورہا ہے اور نہ شرمندگی۔
جب اس حوالہ سے کشمیر کی بات کی جاتی ہے تو حالیہ کچھ ایک برسوں سے یہ بات بار بار مشاہدے میں آرہی ہے کہ کشمیرمیںبھی مختلف مسلکوں سے وابستہ خود ساختہ علماء اور مولوی حضرات انہی خطوط پر مسلکی نظریات اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کے راستوں پر گامزن ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے اور فضل ہے کہ باشعور اور دین پرست حضرات اور ذمہ دار شہری بروقت مداخلت کرکے ان مخصوص فسادیوں کے فتنوں کو ناکام بناتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ فتنے ابھی چند روز قبل پھر سے جگانے کی دانستہ یا غیر دانستہ کوشش کی گئی لیکن دونوں مسلکوں کے باشعور اور دین پرست شخصیتوں کی بروقت مداخلت نے ان فتنہ پروروں کی ان نئی کاوشوں کو ناکام بنادیا اور عوام سے جذبات کوقابو میں رکھنے کی سمت میں اہم کردارادا کیا جبکہ ایڈمنسٹریشن نے بھی فوری طور سے حرکت میں آکر فسادیوں اور فتنہ پروروں کی ایک ٹولی کو حراست میں لے کر عوام تک واضح پیغام پہنچادیا۔
جو کوئی بھی اس نوعیت کی دانستہ یا غیر دانستہ کوشش کررہا ہے ظاہر ہے اس کے پیچھے اس کے مکروہ عزائم ہی ہیں جن کا واحد مقصد یہی ہے کہ اہل وادی مسلکی اختلافات یا مسلکی نظریات کی آڑ میںایک دوسرے کے گلے پر آری چلائے، کشمیر کی سرزمین کو لہو رنگ بنائے، کشمیرکو کھنڈرات میں تبدیل کرے تاکہ کشمیردُشمن ان سبھی طاقتوں جو عرصہ سے اسی کی تاک میں رہتے چلے آرہے ہیں اپنے منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بناسکیں، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں یا اپنی جگہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ صابہ کرامؓ کی دینی خدمات، ان کی تعلیمات اور ان کے اپنے ادوار کے حوالہ سے معاملات کو آج ۱۵؍ سو سال گذرنے کے بعد اختلافی موضوع بنائیں، آج کی تاریخ میں اپنی ناقص العقل سوچ اور بیہودہ طرزعمل کی لائی پررقص کرتے ہوئے ان کے رول اور خدمات کو غلط اور معاندانہ قرار دے وہ اپنے لئے یقینی طور سے جہنم کے دروازے کھول رہے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے ان کے بارے میں اور ان کے درجات کے بارے میں واضح فرمان کے بھی منکر نظرآرہے ہیں۔
ان اختلافی نظریات کو جو کوئی بھی فساد اور فتنہ کی بُنیاد بنانا چاہتا ہے ذاتی طور سے انہیں ایسا کرکے کیا کچھ حاصل ہوگا یا ہوسکتا ہے کچھ قطعیت کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے البتہ جو لوگ باالخصوص کشمیر دُشمن ایسے ہی منظرنامے کی ٹوہ میں ہیں وہ ضرور کامیاب ہوں گے اور کشمیرکی سرزمین سے کشمیریوں کی نسل اورآبادی اور ساتھ ساتھ کشمیریوںکی تاریخی شناخت اور تشخص کا خاتمہ ضرور دُنیا کے نقشے پر اپنی جگہ بنانے کی سمت میں ان کیلئے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ جو لوگ اس سوچ کے حامل ہیں اور اپنی ناقص دلیلوں کی بُنیاد پر ایک نیا مگر اپنی پسند کا مذہب پروان چڑھتا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ اُن کشمیر ازلی دُشمن عنصر کے اُن بیانات کا بھی پھر سے مطالبہ کریں اور ان پر غور کریں جو عنصر بار بار یہ کہتے آرہے ہیں کہ ’’ہم نے کشمیر میں مسلمانوں کو سنیوں اور اہل تشیعوں میں تقسیم کرنے کی سمت میں اہم کامیابی اور پیش رفت حاصل کی ہے اور بہت جلدیہ تقسیم نقشہ پر بھی نظرآئیگی‘‘۔ کیا یہ بیانات اور پھر ایک مخصوص طبقہ کی جانب سے کشمیر کو دوحصوں میںتقسیم کرنے کے نظریے اور ایجنڈا کو آگے بڑھانے والوں کی سرگرمیوں اور بیانات چشم کشا نہیں؟
خدا را سنبھل جائو، اپنے قدموں کو روک لو اور ہوش کے ناخن لو، کشمیرا یک عرصہ سے عتاب وعذاب میں ہے، کشمیری ایک مستقل دردناک عذاب سے گذررہے ہیں، انہیں قدم قدم پر زندگی کی ہر ایک ضرورت کے حوالہ سے محتاج اور دست نگر بنایاجارہاہے، ان کا گھیرا تنگ کرنے کا عمل جاری ہے، لوگوں کی معاشی ترقی اور باعزت روزگار کا حصول اب ناممکن بنایا جارہاہے، زمین کی ملکیت پر گہرے سایے منڈلارہے ہیں ، کشمیر کی سیاست کی قیادت کے کم وبیش سبھی دعویداروں کو ان ساری باتوں اور حقائق کی علمیت ہے لیکن حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار نے انہیں ابن الوقت ، ہوس گیر اوراندھا بنادیا ہے۔ انہیں زمینی سطح پر لوگوں کی یہ حالت نظرتو آرہی ہے لیکن ان کی اپنی سیاست ہے، بالکل وہی سیاست ، وہی مفادات اور وہی نظریہ جو کشمیرکے اپنے ایک وقت کے بادشاہ یوسف شاہ چیک کے دورمیں وقت کے میر جعفر اور صادق کے رہے ہیں۔اور جو لوگ مختلف معاملات پر آپسی اختلافات کو ہو ا دینے کی کوشش کررہے ہیں ان کے بارے میں یہی کہنا واجبی ہوگا کہ وہ میر جعفر اور صادق کی ہی نسل سے ہوں گے۔