سونہ مرگ ٹنل کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم نریندرمودی کی شرکت اور وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی جانب سے ترقیات کی سمت میں وزیراعظم کی کاوشوں کی سراہنا اور گر م جوشی کے چند کلمات کشمیر نشین اپوزیشن کے ایک مخصوص حصے کو جہاں ہضم نہیں ہورہے ہیں وہیں جموں نشین اپوزیشن بی جے پی نے ترقیاتی عمل میں وزیراعظم کے رول اور کاوشوں کو لے کر گرمجوشی کے چند کلمات کے اظہار کا وزیراعلیٰ کی جانب سے سراہنا کی جارہی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ محبو بہ مفتی نے اپنے ردعمل میں وزیراعلیٰ عمرعبداللہ پر الزام لگایا کہ وہ اپنی حرکات سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے مرکزی سرکار کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کررہے ہیں اور موازنہ اپنے والد مرحوم مفتی محمدسعید کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کیا کہ محض ۱۶؍ نشستیں ہاتھ میں ہونے کے باوجود وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کا اعتماد حاصل کرلیاتھا لیکن۵۰؍ اراکین کی طاقت ہاتھ میں ہونے کے باوصف عمرعبداللہ مرکز کی چاپلوسی کرکے مرکز کے اگست کے فیصلے پر مقدم سمجھ رہے ہیں۔
ایک اور کشمیرنشین اپوزیشن لیڈر سجاد غنی لون نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’یہ ہمارا وزیراعلیٰ ہے جو خوشیاں منارہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ آسمان پر چھائے بادلوںنے ہٹ کر وزیراعظم کا خیر مقدم کیا۔ دونوں اپوزیشن لیڈروں کے ردعمل کا جواب نیشنل کانفرنس کے کسی ترجمان نے اپنی زبان میں دے دیا ہے۔
قطع نظر اس کے سوال یہ ہے کہ اعتراض یا مخالفت کیوں؟کیا وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی اور لوگوں کی موجودگی میںوزیراعظم کا گریبان پکڑ کر انہیں زمین پر ٹپک دیتا اور کہتا کہ اس کی قیادت میں مرکز نے کیوں۵؍اگست مسلط کردیا۔ کیا اخلاقیات اور سیاسیات کے یہی تقاضے ہیں کہ گھر آئے مہمان کی بے عزتی کریں، کیا ملک کے فیڈرل طرز نظام میں ایسی کوئی شہادت یا واقعہ دستیاب ہے کہ جب ملک کی کسی ریاست ؍یوٹی کے وزیراعلیٰ نے کچھ اختلافی معاملات پر وزیراعظم کی بے عزتی کی ہویا وزیراعظم کی سٹیج پر موجودگی کے باوجود یہ کہا ہو کہ ’’ یہ پاکستان کی مہربانی ہے کہ اس نے تعاون دے کر کشمیر میں الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنایا‘‘ جیسا کہ پی ڈی پی کے وژنری لیڈر مرحوم مفتی محمدسعید نے وزیراعظم کی سٹیج پر موجودگی کے وقت اعلان کیا تھا؟
فیڈرل طرز حکومت یا نظام کے اپنے کچھ مخصوص دائرے ہیں جن کے اندر رہتے مرکز اور ریاستوں کیلئے اختیارات اور فیصلہ سازی کے حقوق متعین ہیں۔ بے شک جموں وکشمیرفی الوقت ایک یوٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس حیثیت کے ہوتے منتخبہ حکومت کے اختیارات محدود ہیں۔ لیکن ان محدود اختیارات کے ہوتے جموں وکشمیراور بحیثیت مجموعی عوام کے جو معاملات اور اشوز ہیں انہیں کلی طور سے حل کرنا یوٹی حکومت کے حد اختیارات میںنہیں ہے۔ اس کیلئے مرکز کے ساتھ اشتراک اور تعاون ناگزیر ہے ۔ معاملات کا حل تلاش کرنے کیلئے مرکز کے ساتھ مفاہمت اور اشتراک عمل کے جذبے اور راستوں پر چلنا ایک مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی ہے لڑائی جھگڑوں کے راستے اختیار کرکے عوا م کاکوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی جموں وکشمیرمیں ترقیات اور فلاح وبہبود سے متعلق معاملات میں پیش رفت حاصل کی جاسکتی ہے۔
وزیراعلیٰ نے اس سارے تناظرمیں وزیراعظم کی کاوشوں کی سراہنا کی اور سردیوں کے ان ٹھٹھرتے ایام میں وادی میں ان کی آمد کی تعریف کی اور خیر مقدمی الفاظ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق خود وزیراعظم کو ان کی اپنی یقین دہانی یاد دلاتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا کہ ’’میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ وزیر اعظم اپنا وعدہ پورا کریں گے تواس میں خوشامدی یا چاپلوسی کا کون سا عنصر اپوزیشن کو اپنی مخصوص عینک سے دکھائی دے رہا ہے‘‘۔
اس میں دو رائے نہیں کہ الیکشن کی گہما گہمی کے دوران ہر سیاسی پارٹی عوام سے مختلف نوعیت کے وعدے کرتی ہے ، یقین دہانی کراتی ہیں اور بہت سارے خوش نما نعروں کا بھی سہارالیا جارہا ہے ۔ کشمیرنشین ہر پارٹی نے بھی ایسا ہی کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن کی وساطت سے جس پارٹی کو عوام کا بھر پور اورمکمل اعتماد منڈیٹ کی صورت میں حاصل ہوا وہ پارٹی جہاں اپنے چنائو منشور اور عوام سے کئے وعدوں کی عمل آوری کی سمت میں پابند ہے وہیں ان وعدوں اور یقین دہانیوں کی تکمیل کیلئے اس کیلئے لازمی ہے کہ وہ حصولیابی کے راستے تلاش کریں۔ عوام الناس آس لگائے بیٹھی ہے اور منتظر ہے کہ کب ان کے معاملات اور مسائل کا ازالہ کیا جاتا ہے ۔ لیکن اس ازالہ کیلئے کیا منتخبہ حکومت اپنے سے بر تر اور مرکز میں صاحب اختیار حکومت کے ساتھ جنگ کرے، لڑائی اور مخاصمت کا راستہ اختیار کرے، کشمیریا جموں آمد پر مرکزی قیادت کی تضحیک کرے، ان کا گریبان پکڑ کر اپنی سیاسی حیوانیت کا مظاہرہ کرے، جیسا کہ سرحد کے اُس پار پاکستان کے ایک صوبہ کا وزیراعلیٰ امین گنڈہ پور آئے روز اسلام آباد میں واقع مرکزی حکومت کے ساتھ کررہا ہے؟
کشمیر تباہی اور بربادی اور سالہاسال پر محیط عدم سیاسی استحکام اور بے چینی کے عالم سے گذرنے اور معاملات سے جوجھنے کے بعد امن، ترقی اور سکون چاہتا ہے۔ اس سمت میں اپوزیشن کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنا کردار اداکرے لیکن قدم قدم پر ان کی طرف سے آئے روز جس ردعمل کو بان دی جارہی ہے وہ منفی ہے اور یہ بھی ممکن یاخدشہ ہے کہ اس سے کچھ حلقوں کا توازن بگڑ جائے اور کشمیر ایک بار پھر میدان جنگ میںتبدیل ہوجائے۔ لیکن ۹۔۹۹ فیصد عوام کی ایسی کوئی خواہش ہر گز نہیں، وہ اپنی ترقی، استحکام اور خوشحالی چاہتے ہیں، بے شک جموں وکشمیر کو سیاسی اور انتظامی سطح پر کچھ حساس نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے اور یہ سامنا اپنے اندر کچھ چیلنج کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ لیکن ان چیلنجوں سے عہدہ برآں ہونے کیلئے تدبر ، حکیما نہ طرزعمل، مفاہمت اور اشتراک عمل پر مبنی سیاسی حکمت عملی درکار ہے نہ کہ مخاصمت اور محاذ آرائی۔
کشمیر نشین اپوزیشن خیمے سے وابستہ جو بھی لیڈر شپ وہ ماضی قریب میں کسی نہ کسی حوالہ سے خود بھی صاحب اختیار اور حکمرا ن رہے ہیں، محبوبہ مفتی کی قیادت میںسید الطاف بخاری اور سجادغنی لون وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، اس حیثیت میں رہتے وہ اچھی طرح سے علمیت رکھتے ہیں کہ حکومت اور اپروچ کے حوالہ سے تقاضے کیا ہیں یا کیا ہونے چاہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ ’پتر حسد‘ کی آگ کی بھٹی میں جل بھن رہے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں بلکہ اس توقع کا بار بار اظہار بھی کررہے ہیں کہ عوام کی منتخبہ عمر حکومت مرکز کے ساتھ ۵؍اگست سمیت دوسرے کئی معاملات کو لے کر مخاصمت اور محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرے۔
فرض کریں کہ عمر حکومت یہی راستہ اختیار کرتی ہے تو اس سے حاصل کیا ہوگا؟ کیا کشمیرنشین اپوزیشن کشمیرمیں نئے قبرستان آباد کرنے کی خواہش اپنے سینوں میں پال رہی ہے؟۔
۔۔