پیر, جولائی 7, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

پریس، آزادی کیلئے وزیراعلیٰ کا مشکور

لیکن جوابات عوام کی اکثریت کو مطمئن نہیں کرسکے 

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2025-01-05
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

جھلستی دھوپ اوربارشوںمیں کمی کے منفی اثرات

مقامی میڈیا کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس کے چند ایک پہلو قابل توجہ بن رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ۵؍برس کے بعد یہ لمبی پریس کانفرنس رہی اور میڈیا نے کھل کر سوال کئے جبکہ ۵؍برس تک میڈیا سوال نہیں کرپارہا تھا۔ غالباً یہ دعویٰ درست ہے ۔ میڈیا اس ’آزادی ‘کے لئے واقعی وزیراعلیٰ کا مشکور ہے۔
وزیراعلیٰ نے کئی معاملات پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا۔ بجلی، ترقیاتی پروجیکٹوں کیلئے زمین کا حصول ، چنائو منشور میں کئے وعدوں کا ایفاء ، بزنس رولز، مرکزی قیادت کی جانب سے ’میری حکومت‘ کو غیر مستحکم نہ کرنے بلکہ ویسا ہی تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی جو تعاون ایل جی کو مل رہا ہے، ٹائون شپ کی مجوزہ تعمیر وغیرہ امورات پر کھل کر اپنے خیالات کااظہار کیا۔ البتہ جو جواب عمرعبداللہ نے دیئے کیا عوام اُن سے مطمئن ہے، کیا وہ جوابات لوگوں کی اصل ضرورت اور خواہش کی تکمیل کی سمت میں کوئی مثبت اشارہ کررہے ہیں یا جوابات کی نوعیت لمحاتی اور وقتی ہے یا دو قدم آگے بڑھ کر مصلحتوں کے مطیع ہیں؟
ان کے بارے میں کچھ قطعیت کے ساتھ کہنا قدرے مشکل ہے ۔ وزیراعلیٰ کا یہ کہنا کہ ’’یہ زمین ان کے دادا مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے لوگوں کو دی تھی لیکن ترقی کیلئے حصول اراضی کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ ریلوے اور سڑک پروجیکٹوں کے لئے غیر پیداواری اراضی حاصل کرنے کی طرف توجہ مبذول کی جارہی ہے ، اگر کسی کو اراضی دینے پر اعتراض ہے تومتبادل مقامات کو تلاش کیاجائے گا۔ وزیراعلیٰ کا یہ کہنا آدھا سچ ہے کہ یہ زمین شیخ محمدعبداللہ نے انہیں منتقل کرائی۔سوال یہ ہے کہ یہ زمین خاندانی ملکیت نہیں تھی بلکہ ان زمینوں کو آمرانہ دور کی جابرانہ پالیسیوں، استحصال اور بے گار پر مبنی ظلم وجبر کے بل پر ایک مخصوص طبقے کی ملکیت میں دی گئی تھی اس حوالہ سے تاریخ گواہ ہے۔ مرحوم رہنما نے ونوبھاباوے کی بودان تحریک سے متاثر ہوکر لینڈ ٹوٹلر کا راستہ اختیار کیا، ان کا یہ اقدام واقعی عہد ساز بلکہ ناقابل فراموش ہے لیکن مرحوم راہنما کے اس اقدام کی قیمت نہ صرف آنے والے ایام میں ان کے سیاسی کیرئیر بلکہ عام لوگوں کو بھی زندگی کے کئی ایک شعبوں میں بھگتناپڑا بلکہ اس وقت بھی بھگتنا پڑرہاہے تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے۔
بہرحال جس زمین کی نشاندہی کی جارہی ہے وہ زرعی ہے اور متعلقہ لوگوں کی روزمرہ روٹی ، چھت اور روزگار کی ضمانت کا واحد سہارا ہے۔ اسی سہارا کا تحفظ لوگ چاہتے ہیں۔ بے شک ترقیاتی پروجیکٹوںکیلئے معاملات کوآڑے آنے نہیں دیا جاسکتا ہے لیکن سیدھاسا سوال یہ ہے کہ این آئی ٹی کے قیام کیلئے کیوں ۶۰۰؍ ایکڑ اراضی درکار ہے؟ جبکہ این آئی ٹی میںزیرتعلیم وتربیت بچوں کی تعداد محض تین ہزار کے قریب ہے۔ زیرتعلیم ایک طالب کیلئے اوسطاً ڈیڑھ کنال اراضی کیوں درکار ہے ۔ جبکہ این آئی ٹی کے پاس پہلے ہی تین سو کنال اراضی پر مشتمل کیمپس واقع نگین (حضرت بل ) میںموجود ہے۔
رنگ روڈ سے متصل مجوزہ ٹائون شپ کے بارے میںوزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اس ٹائون شپ کی تعمیر کا کوئی منصوبہ ان کی حکومت کے پاس نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا منصوبہ آیا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی ٹائون شپ ہوگی بھی تو وہ باہر کے لوگوں کیلئے نہیں بلکہ ڈائون ٹائون سرینگر کی آبادی جو گنجان بستیوں میںرہائش پذیر ہے ان کیلئے ہوگی۔
یہ ایک تضاد بھرا بیان ہے ۔ ٹائون شپ کی تعمیر کا منصوبہ ان کی حکومت کا مرتب کردہ نہیں بلکہ اس منصوبہ کے بارے میں رنگ روڈ کی تعمیر کے وقت سے ہی گردش میں ہے اور اس وقت یہ گہرا ہوتا گیا جب مقامی ایڈمنسٹریشن نے رنگ روڈ سڑک کے دائیں بائیں پانچ سو میٹر حدود میںکسی بھی تعمیر پر پابندی کافرمان جاری کردیا۔ تقریباً ستھر کلومیٹر لمبے اس مخصوص ٹریک کے دائیں بائیں کئی ہزار ایکڑ اراضی کا مجوزہ حصول پروجیکٹ کا حصہ ہے، کس لئے ؟
کشمیر اور نہ ہی اوسط شہری ترقیات یا جدیدیت کے خلاف ہیں ۔ وہ بے شک ترقی چاہتے ہیں اور ترقی کی زبردست خواہش بھی رکھتے ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح وہ بھی ترقیات کی سمت میں آگے بڑھیں اور اپنا مٹھی بھر رول بھی ادا کریں ۔ لیکن گذرے ۷۵؍ سالوں کے دوران خود حکومت نے کچھ ایسا رویہ اختیار کیا اور پالیسیاں مرتب کیں کہ جو کسی بھی حوالہ سے سرمایہ کاری اور مجموعی ترقیاتی عمل کی سمت میں معمولی نوعیت کی بھی ثمرآور ثابت نہ ہوسکی۔ بلکہ تلخ ترین سچ یہ ہے کہ ان پالیسیوں کا بُنیادی مقصد اور نشانہ کشمیرکو زندگی کے ہر ایک شعبے میں دست نگر اور محتاج بنانارہا۔ آج اسی محتاجی کا منظرنامہ کشمیربحیثیت مجموعی سہ رہا ہے۔
حقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے تو یہ بات اُبھر کر زیادہ واضح صورت میں سامنے آرہی ہے کہ کشمیر کو ٹائون شپ اور مالوں کی ضرورت نہیں بلکہ روزگار کی ضمانت سے عبارت پروجیکٹوں کی ضرورت ہے نہ کہ ان پرجیکٹوں کی جنہیں عمومی زبان میں’غیر پیداواری ‘ تصور کیاجاتا ہے۔ کشمیرنہ صرف تعلیم بلکہ صحت عامہ اور روزگار ایسے بُنیادی شعبوں میں صفرحیثیت رکھتا ہے ۔ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ آہستہ آہستہ دم توڑتا جارہا ہے، رعناواری ہسپتال اپنے کیچ منٹ ایئریا کی ضروریات پوری نہیں کرپارہا ہے، کئی سال قبل سے نئی عمارت میںنصب ’لفٹ‘ معمولی مرمت کا متقاضی ہے،ا س کی مرمت ایڈمنسٹریشن کیلئے ترجیح نہیں، صد رہسپتال بھی اب لوگوں کا رش جھیلتا دکھائی نہیں دے رہا ہے جبکہ ڈسٹرکٹ اور سب ڈسٹرکٹ ہسپتالوں سے ریفرنس کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔
بہرحال اور بھی کئی ایک معاملات ہیں جو غوروفکر کا تقاضہ تو کرتے ہیں لیکن یہاں یوٹی میں کچھ ایسی صورتحال اُبھرتی جارہی ہے کہ جس کے حوالہ سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان میری ‘‘۔ وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ انہیں مرکز ایل جی یا بی جے پی کی طرف سے کسی دبائو یا مخالفت کا سامنا نہیں بلکہ ’’میری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی جائیگی‘‘خدا کرے کہ وزیراعلیٰ کا یہ بھرم قائم رہے۔ لیکن اپوزیشن کی طرف سے آئے روز جو بیانات آرہے ہیں وہ اس بھرم کی ضد محسوس کئے جارہے ہیں۔
دو ماہ کچھ دن طویل حکومت کی کارکردگی جانچنے اور تجزیہ کرنے کیلئے کوئی بُنیاد نہیںرکھتے، لیکن کشمیر نشین اپوزیشن بھی اور جموں نشین اپوزیشن بھی جانچنے کے اس معیار کو مانتی نہیں بلکہ جو انداز اور رویہ ان کی طرف سے اختیار کیاجارہاہے اس سے تو لگتا یہی ہے کہ وہ فرض کرچکے ہیں کہ منتخبہ حکومت کے ہاتھ الہ دین کا کوئی چراغ ہے جبکہ گذرے دس سالہ کارکردگی اور حصولیابیوں کو جانچنے کا اُن کا اپنا کوئی معیار اور پیمانہ نہیں ۔یہ تضاد کیوں؟
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

حمام کی تخلیقات!

Next Post

رونالڈو کا گرل فرینڈ جارجینا روڈریگز کو بیوی کہنا تنازع کھڑا کرگیا

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

2025-07-06
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

جھلستی دھوپ اوربارشوںمیں کمی کے منفی اثرات

2025-07-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

امر ناتھ یاترا :سرکاری انتظامات اور مقامی مسلمانوں کے تعاون کا امتزاج

2025-07-03
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

پی اے سی: کیا کشمیر میں اب بھی جذباتی نعروں کی گنجائش ہے ؟

2025-07-02
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-02
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-01
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

پہلگام میں جنسی زیادتی کا واقعہ:ہم کہاں جا رہے ہیں؟

2025-06-30
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

جموں کشمیر :کانگریس کے قول و فعل میں تضاد؟

2025-06-29
Next Post
کرسٹیانو رونالڈو نے لیونل میسی کو سوشل میڈیا پر شکست دے دی

رونالڈو کا گرل فرینڈ جارجینا روڈریگز کو بیوی کہنا تنازع کھڑا کرگیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.