روپے پیسوں کے پیچھے بھاگنے والی اس دنیا میں کمبخت جذبات اور احساسات کھوٹے سکے کی حیثیت رکھتے ہیں …جی ہاں کھوٹے سکے جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی ۔ہاں اگر ہم ایک دو سو سا ل پیچھے چلے جائیں تو ممکن ہے کہ اُس وقت کسی کسی کیلئے جذبات اور احساسات کوئی معنی رکھتے تھے ‘ لیکن بھیا آجکل کی دنیا میں نہیں …بالکل بھی نہیں ۔دنیا بڑی تیز ہو گئی ہے‘ اس کی رفتار ‘برق رفتار ہے اور ایسے میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ خود کو جذبات کی رو میں بہنے دے۔آج کی حقیقت یہ ہے کہ لوگ حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں ‘ایسی دنیا جس کا دین دھرم روپے پیسہ ہے اور کچھ نہیں ۔ لوگوں کو صرف روپے پیسے سے غرض ہے ‘کسی اور بات سے نہیں …جذبات اور احساسات سے بالکل بھی نہیں ۔ یہ روپے پیسے غریب کی بھی ضرورت ہے اور امیر کی ہے ۔ غریب ملک کی بھی اور امیر ملک کی بھی ۔روپے پیسوں سے ہی اور روپے پیسوں کیلئے ہی آج کی دنیا میں رشتے بنتے اور بگڑتے ہیں …دوست دشمن بن جاتے ہیں اور دشمن دوست ۔یہ روپے پیسہ ہی ہے جو آجکل لوگوں کا خدا بن گیا ہے … لوگوں کا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا…دنیا کے سارے ممالک کا ‘ امیر ممالک کا بھی اور غریب ممالک کا بھی ۔ مادی فوائد ہی طے کرتے ہیں کہ کس کے ساتھ کس طرح کے تعلقات استوار کرنے ہیں اور یہی آج کی سچائی اور حقیقت ہے ۔آجکل کے رشتوں میں جذبات اور احساسات کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ہندوستان دنیا کیلئے ایک بڑی منڈی کے روپ میں ابھر کر سامنا آگیا ہے ‘یہ ایک بہت بڑا مارکیٹ ہے جہاں ہر ایک ملک اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں۔ہندوستان سے کسی کو کوئی جذباتی لگاؤ نہیں ‘ کوئی ہندوستان سے جذباتی رشتے استوار نہیں کررہا ہے بلکہ ان رشتوں کی بنیاد روپے پیسہ ہے اور کچھ نہیں ۔ہر کوئی ملک اپنے حصے کا حصہ حاصل کرنے کی دوڈ میں ہے کہ ممالک کے باہمی تعلقات میں اقتصادیات نے جذبات اور احساسات کو بے دخل کر کے ان کی جگہ حاصل کر لی ہے ۔ اور یہی اس صدی …۲۱ ویں صدی کی حقیقت۔یہ حقیقت کہ جذبات اور احساسات چاہے کسی قوم کیلئے کتنے ہی اہم اور مقدم ہوںان کی حیثیت کھوٹے سکوں سے زیادہ کچھ نہیں… بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہے نا؟