عالمی سطح پر جمہوری ملکوں کی درجہ بندی کا سلسلہ ایک مدت سے چلا آرہاہے لیکن ہر سال کے اختتام پر آئین کی بالادستی اور جمہوری طرزنظام کے حوالوں سے درجہ بندی کا عمل اگر چہ ہورہا ہے لیکن جو اعداد سامنے آرہے ہیں ان میں سال کے اختتام پر بدلائو نظرآرہاہے۔
یہ بدلائو اس بات کو اُجاگر کرتا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر حقیقی معنوں میں جو جمہوری کہلائے جانے کے مستحق اور اہل ہیں اُن میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ فی الوقت ۱۶۷؍ ممالک کے تعلق سے اعداد وشمارات یا درجہ بندی دستیا ب ہے۔ ان ۱۶۷؍ ممالک میں سے ۱۶۶؍ ممالک آزاد ہیں جبکہ ان ۱۶۶؍ میں سے ۱۶۴؍ اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور سے صرف ۲۴؍ ممالک ایسے ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ مکمل جمہوری ملک ہیں جبکہ ۵۰؍ ممالک ایسے ہیں جن کے بارے میں کہاجارہاہے کہ وہ جمہوری تو ہیں لیکن ان کی وہ جمہوریت نقص زدہ ہے۔ ۳۴؍ ممالک کے بارے میں کہاجارہاہے کہ وہ ہائی برڈ حیثیت رکھتے ہیں جبکہ ۵۹؍ ممالک میں آمریت پر مبنی نظام موجود ہے۔
یہ اعداد وشمار حیران کن بھی ہیں اور توجہ طلب بھی ہیں۔ وہ اس لئے کہ جو ممالک ہائی برڈ، نقص ذدہ یا جزوی آمریت میں شمار کئے جارہے ہیں ان کی حکومتیں مسلسل دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ جمہوری ہیں اور آئین کی بالادستی کررہی ہے۔ لیکن بادی النظرمیںایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان ممالک کے سیاسی حالات، تحریر وتقریر اور مذہبی آزادی، روزمرہ رہن سہن، تہذیبی اور ثقافتی حوالوں سے باہم متصادم انداز فکر اور طرزعمل، لسانی اور تعلیمی نظام کے حوالہ سے آبادی کے مختلف طبقوں کے درمیان عدم یکسانیت اور عدم مساوات، ترقیاتی عمل اور لازمی سروسز کی دستیابی کی راہ میں متعصبانہ روش، جوڈیشری کی کچھ اکائیوں کی جانب سے فیصلوں کے حوالوں سے قانون اور شہادتوں سے کہیں زیادہ نظریہ ضرورت کے پیش نظرفیصلوں کا اجراء ایسے کئی ایک معاملات ان حکومتوں کے جمہوری ہونے کے دعوئوں کی نفی کررہے ہیں۔
جنوبی ایشیاء کے اس خطے میں روس، چین، ہندوستان ، پاکستان ،افغانستان ، بنگلہ دیش ،میانمار، سری لنکا، بھوٹان، نیپال وغیرہ واقع ہیں۔ ان ممالک کی عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی درجہ بندی ہے۔ مثال کے طور پر روس، افغانستان ، چین ،میانمار، پاکستان آمریت کے زمرے والے ممالک میں شمار کئے جارہے ہیں ، بنگلہ دیش ، بھوٹان، نیپال ہائی برڈ والے ممالک میں شمار ہورہے ہیں، ہندوستان جس کا مسلسل دعویٰ ہے کہ وہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے کاشمار سری لنکار کے ساتھ نقص ذدہ جمہوریت والے ممالک میں کیا جارہا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں دُنیا ہندوستان کو مکمل جمہوریت کے طور تسلیم نہیں کررہے ہیںجبکہ پاکستان کی طرف سے یہ دعویٰ کہ وہ بھی جمہوری ہے کو بھی تسلیم نہیں کیاجارہا ہے۔
۱۶۷؍ ممالک میں سے صرف ۲۴؍ ممالک کا مکمل جمہوری ہونے کا دعویٰ عالمی سطح پر تسلیم کئے جانا کیا اس بات کی طرف واضح اشارہ نہیں کہ دُنیا میں جمہوریت سکڑتی جارہی ہے، آئین توسارے ممالک میں جس کسی شکل اور ہیت میں موجود ہے اس کی بالادستی گہن زدہ ہوتی جارہی ہے اور ادارے چاہئے وہ انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہوں، جوڈیشری سے وابستہ ہوں، تعلیم یا ترقیات یا سوشل ادارے ہوں کی سوچ اور اپروچ میں بڑی تیز رفتاری سے تبدیلی واقع ہوتی جارہی ہے۔ ادارے بحیثیت مجموعی ملکوں کی اپنی آبادی کے حجم کے نظریات ، پسند ناپسند، ضرورت اور عدم ضرورت اور نظریوں کی خواہش کے مطابق زندگی کے ہر شعبے کے حوالہ سے طرز نظام وعمل کواب ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔وہ کوئی ملک نہیں جہاں لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں جبکہ اقلیتوں کے تعلق سے کم وبیش سارے حقوق بتدریج چھین لئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب چند قدم آگے بڑھ کر اقلیتوں کی عبادت گاہوں ، کاروباری اورتجارتی اداروں، ہائش گاہوں، تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں کو بھی ہجومی تشدد کا نشانہ بنایاجارہاہے او رتشدد میں ملوث لوگوں کو سرکاری سطح پر تحفظ فراہم کیاجارہاہے البتہ جن کو ہجومی تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنایاجارہا ہے انہی کے خلاف معاملات درج کرکے انہیں سزائیں دی جارہی ہیں۔
یہ عمل پاکستان، ہندوستان ، میانمار اور بنگلہ دیش میں جاری ہے لیکن حکمرانوں کی سوچ اور طرزعمل کے ساتھ ساتھ ان کے بیانیہ کا بدبختانہ اور شرمناک پہلو یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور تشدد کے معاملات پر بیان بازی تو کررہے ہیں لیکن اپنے اپنے ممالک کی اقلیتوں کو جس امتیاز اور تشدد اور فکری دہشت گردی کاسامنا ہے ان پر بات نہیں کرتے۔
بچپن میں کسی نصابی کتب میں ایک چیپڑ ہوا کرتا تھا جس میں سے ایک مضمون کا عنوان تھا ’’ سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ… جو نقش کہن تم کو نظرآئے مٹادو…!معلوم نہیں شاعر نے کس جذبے یا کس خواب کی متوقع تعبیر میں یہ شعر تخلیق کیا تھا جو اُس دور میں زبان زد عام ہوگیا تھا لیکن زمانہ گذرتے اب اس شعر کی معنویت، مفہوم ، تشریح وغیرہ سب کچھ بے وقعت سی محسوس ہورہی ہے۔ سلطانی (جمہوری) دور توآتے آتے ہی دم توڑتا جارہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ اعداد وشمارات ہیں جن کا حوالہ محولا بالا پیراگراف میں آچکا ہے۔اب جو رجحان ہے اور دُنیا جس سمت میں پیش قدمی کررہی ہے اُس کودکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا اب مشکل نہیں کہ یہ جو ۲۴؍ ممالک مکمل جمہوری فہرست میں آج کی تاریخ میں شمار کئے جارہے ہیںآہستہ آہستہ ان کی تعداد سمٹتی جائیگی ان میں سے کچھ نقص زدہ جمہوریت کے زمرے میں آجائیں گے کچھ آمریت کا چولہ زیب تن کرکے نظرآئیں گے یا کچھ ہائی برڈ نظام کو اپنے گلے کا ہار بنائے گے۔
بہرحال جو ۲۴؍ ممالک جمہوری ہیں ان میں دُنیا کا ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں ۔ ۶۰؍ ممالک پر مشتمل مسلم بلاک جمہوریت کے بغیر دیگر زمروں میںشمار کئے جارہے ہیں البتہ زیادہ تر کاشمار آمریت والے ممالک میں ہی ہورہا ہے۔ عرب اور خلیجی ممالک ان میں سرفہرست ہیں۔ جن کی قیادت سعودی عرب کررہاہے جو خاندانی شاہی نظام کے سایے میں پرورش پارہاہے۔ یہی حال احوال باقی خلیجی ممالک کے حوالہ سے بھی ہے۔
جمہوریت اورآئین کی بالادستی کیوں دم توڑ تی جارہی ہے اس کی اہم ترین وجہ کنبہ پروری، اقربانوازی، نسلی اور تہذیبی بنیادوں پر حکومتی اورانتظامی تشکیل اور قیام، بدعنوانی ، کورپشن اوراستحصال سے عبارت حکومتی اور سیاسی طرزعمل،مختلف نظریات اور مذہبی عقیدوں کے حوالوں سے جنونیت، لااینڈ آرڈر کے حوالہ سے تعصب جوڈیشری پر گرفت اور فیصلوں کو اندھی سیاسی مصلحتوں اورنظریہ ضرورت کے تابع کرنے کا بڑھتا رجحان کچھ اہم امورات میںشمار کئے جارہے ہیں۔ غیر منقسم ہندوستان سے وابستہ خطوںمیں آج کی تاریخ میں یہی کچھ ہورہاہے آگے کیا ہوگا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
۔۔۔