سابق والی ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ نے دربارمو کی بحالی کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس فیصلہ کے حوالہ سے اُنہیں مبارک باد پیش کی ہے اور کہا ہے کہ اس اقدام سے جموں اور کشمیر دونوں خطوں کے درمیان یکجہتی اور روابط کی جڑیں مضبوط ہوں گی، ان کا کہنا ہے کہ دربارمو محض دفاتر کی منتقلی کا نام نہیں بلکہ اس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت رہی ہے۔ ’’ میرے اجداد نے یہ محسوس کیا تھا کہ دونوں خطوں کے درمیان لسانی، تہذیبی اور جغرافیائی حد بندیاں اتنی زیادہ تھی کہ جب تک نہ انہیں پاٹا جائے اُ سوقت تک ان کیلئے اکٹھے رہنا مشکل ہوگا۔ دربار مو جموں کیلئے اقتصادی اعتبار سے فائدہ مند رہا ہے۔ اب جبکہ ریاست صرف دو یونٹوں پر مشتمل ہے اس اعتبار سے یہ اور بھی لازمی بنتا ہے کہ دونوں خطوں کے رشتوں کو مضبوط بنایاجائے‘‘۔
وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے جموں کی سول سوسائٹی کے ساتھ گذشتہ روز اپنی طویل نشست میں متعدد معاملات پر ان کے ساتھ تبادلہ خیالات کئے جس میںدربارمو کی بحالی پر بھی بات ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ اس مخصوص اشو پر جموں کے منتخبہ ارکان خاموش ہیں جبکہ جموں بحیثیت مجموعی کی یہ خواہش ہے کہ دربارمو بحال ہوجائے۔ وزیراعلیٰ نے دربارمو سے وابستہ کئی دیگر پہلو ئوں باالخصوص اس عمل کو مالیاتی (خسارہ کے ) تناظرمیں دیکھنے کا بھی حوالہ دیا اور واضح کیا کہ کچھ پہلو یا معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں نفع نقصان کی عینک سے دیکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
وزیراعلیٰ کے اس اعلان سے جموں میں بحیثیت مجموعی خیر مقدم کیا جارہاہے کیونکہ یہ معاملہ دربارمو کی منسوخی کے بعد سے برابر اشو بنارہا ہے اور مانگ کی جاتی رہی کہ دربارمو کو بحال کیا جانا چاہئے لیکن گورنر ایڈمنسٹریشن اپنے فیصلے کا یہ کہکر دفاع کرتی رہی ہے کہ اس عمل سے خزانہ پر سالانہ ۲۰۰؍ کروڑ روپے کا بوجھ پڑتا تھا۔ لیکن جموں کا عموماً جواب یہی رہا کہ جموں کے کاروبار کو پانچ ہزار کروڑ کا نقصان ہورہاہے جبکہ جموں جی ایس ٹی کے مد میں ۲۰؍ ہزار کروڑ دربار کے دوران اداکرتارہا۔
بہرحال دربارمو کو کچھ لوگ نفع ونقصان کے ترازو میں دیکھنے اور تولنے کی اپنی روایت پر قائم ہے جبکہ کچھ لوگ اس عمل کو دوخطوں کے درمیان تجدید تعلقات ، آپسی روابط اور رشتوں کی مضبوطی، کا روبار اور تجارت کے حوالوں سے ایک ثمرآور سالانہ عمل کے طور پیش کررہے ہیں۔ البتہ جموں کا کاروباری طبقہ دربار مو کی بحالی کی ضرورت کو عموماً اپنے کاروبار اور تجارت کی عینک سے ہی دیکھ اور پیش کرتارہاہے اور ان کی دلیل عموماً یہ رہی ہے کہ دربارمو کو ختم کرنے سے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچ گیا ہے۔ اس کے برعکس کشمیرخاموش ہے۔ نہ کشمیر کے کاروباری اور نہ ہی سو ل سوسائٹی اس مخصوص اشو پر اپنے کسی ردعمل کو زبان دے رہی ہے البتہ دربارمو سے وابستہ انتظامیہ کے کچھ شعبے ضرور کالعدمی کے انتظامیہ کے فیصلے سے ناخوش ہیں۔ اس کے باوجود سوال یہ ہے کہ دربارمو سے کشمیر کو کوئی فائدہ ہورہاہے یا نہیں جبکہ جموں نفع نقصان کی بھی بات دوٹوک الفاظ میں کررہاہے۔ یہ دربار کا ایک پہلو ہے۔
ڈاکٹر کرن سنگھ نے دربارمو کے فیصلے کے اعلان کا خیر مقدم کرکے کچھ اور بھی پیغامات دیئے ہیں۔ ان پیغامات سے ایک پیغام ان چند حلقوں کیلئے مخصوص کیا جاسکتا ہے جو اپنے حقیر ذاتی ، سیاسی یا اپنے سے وابستہ سیاسی… غیر سیاسی پارٹیوں کے استحصال اور شرارت سے عبارت ایجنڈا کی عمل آوری کشمیر اور جموں کی ایک اور تقسیم کو لے کر میدان میں ہیں۔ عوام اور عام فہم زبان میںان عنصر کی حیثیت ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی ہے۔ یہ عنصر جموں کی ڈوگرہ ریاست ، اس کی تاریخ ، خدمات اور کردار پر ایک زبان سے فخر محسوس تو کررہے ہیںلیکن اپنے اس فخر کو خود اپنے پائوں تلے روندھتے ہوئے جموںکی کشمیر سے علیحدگی اور جموں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ نہ صرف کررہے ہیں بلکہ اپنے اس مکروہ ایجنڈا کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ فرقہ واریت کا زہر بھی پھیلارہے ہیں، کشمیر اور کشمیری عوام کی مسلسل کردار کشی بھی کررہے ہیں یہاں تک کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میںوادی سے نیشنل کانفرنس کی جیت کو علیحدگی پسندوں، پاکستان نواز وں اور دہشت گردوں سے منسوب کرکے درحقیقت سارے کشمیر کو دہشت گرد کے طور پیش کررہے ہیں۔ لیکن اپنی اس غلیظ اور گندی ذہنیت کو کشمیریوں کی اُن تاریخی کرداروں کی طرف ایک نگاہ ڈالنے کی زحمت نہیں کررہے ہیں جو کردار بحیثیت مجموعی کشمیری حملہ آوروں کے خلاف ادا کرتے رہے ہیں ۔ لیکن اپنے گھروں میںآرام دہ تکیوں کے ساتھ ٹیک لگانے کے یہ عادی اپنی مجرمانہ ذہنیت اور خصلت کی پرورش اور اس کے اظہار سے بازنہیں آرہے ہیں۔
اگر چہ ڈاکٹر کرن سنگھ ماضی قریب میں ٹکڑے ٹکڑے گینگوں کی ان آوازوں پر عموماً خاموش ہی رہے ہیں لیکن دربار موکی بحالی کے فیصلے کا خیر مقدم کرکے اور اس کی تاریخی اہمیت اور جموں کے لوگوں کے تعلق سے اس کی اقتصادی افادیت کو اُجاگر کرکے انہوںنے جموں کی کشمیر سے علیحدگی کیلئے آوازیں بلند کرنے والوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کردیئے ہیں۔ ان عنصر کیلئے پیغام واضح، صاف اور دوٹوک ہے۔
انہی عنصروں میںسے کئی وہ بھی ہیں جو ریاستی درجہ کی بحالی کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ اس درجہ کی بحالی کو کشمیرمیں سکیورٹی سے وابستہ معاملات کے تابع جتلا کردرحقیقت جموںوکشمیر میں نہ صرف قیا م امن اور استحکام کے دُشمن ہیں بلکہ اس راستہ کو مسلسل اختیار کرکے انہیںاپنی جگہ یقین ہے کہ بالآخران کے نظریہ تقسیم ریاست کا ایک اور ایجنڈا پایہ تکمیل کو پہنچ جائیگا۔
کشمیر نے کبھی بھی اور کسی بھی مرحلہ پر تقسیم ریاست کانعرہ بلند کیا اور نہ ہی اس مذموم اور مکروہ نعرہ کی حامی بھری بلکہ عموماً یہ نعرہ بلند کرنے والوں کی مخالفت کی اور انہیں جموںوکشمیر کی علاقائی اور جغرافیائی وحدت اور سالمیت کو پارہ پارہ کرنے والوں کی نظروں سے ہی دیکھا ہے۔ ایک اور ٹکرے گینگ جس کا تعلق کشمیر سے بتایا جاتا ہے کشمیر کی دوحصوں میں تقسیم کا ایجنڈا لے کر گذشتہ ۳۵؍ برسوں سے میدان میںہے۔ یہی وہ گینگ ہے جو کشمیری پنڈت برادری کی گھر واپسی اور بازآباد کاری کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی جارہی ہیں اور اشتعال انگیز بیانات دے کر فضا کومکدر بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔
اس سارے تناظرمیں اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ مرکز نے ان عنصروں کی جذباتی بلیک میلنگ اور سیاسی سیاہ کاریوں کو کسی خاطرمیںنہیں لایا۔