ریاسی درجہ کی بحالی کے مطالبات میں ہر گذرتے روز کے ساتھ شدت تو محسوس کی جارہی ہے لیکن اُسی شدت کے ساتھ کچھ ایک حلقوں کی جانب سے ’ابھی نہیں‘ کی بھی آوازیں کانوں سے ٹکرا رہی ہیں جبکہ مرکزی سرکار کی جانب سے اس مخصوص اشو پر مکمل خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ اگر چہ پہلے پہل یہ تو کہا اور یقین بھی دلایا جارہا تھا کہ ’مناسب وقت پر‘ ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا لیکن اب یہ مناسب وقت بھی پردوں کے پیچھے کردیاگیا ہے۔
جموںوکشمیر کی نیشنل کانفرنس، اس کی قیادت اور اس کی سرکار کے لئے اب یہ ایک بہت بڑا چیلنج کے طور سامنے آرہا ہے۔ ایسے عندے بھی اب بتدریج ملنے شروع ہوگئے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ دے رہے ہیں کہ مرکزی سرکار فی الحال ریاستی درجہ بحال کرنے کے حق میں نہیں، اس انکار کی وجہ کچھ سیاسی پنڈتوں کی اگر مانی جائے یہ ہے کہ مرکزی قیادت نیشنل کانفرنس سرکار کی کارکردگی کا بغور تجزیہ کرنا چاہتی ہے جبکہ وہ مختلف مکتب فکر سے وابستہ سٹیک ہولڈروں کے ساتھ بھی مشاورت کی خواہاں ہیں۔
اگر چہ ابھی سرکار کی تشکیل کو دو ہی مہینے گذرے ہیں لیکن اس کی اپوزیشن جو ایک ہاتھ سے خود بھی ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ کررہی ہے لیکن دوسرے ہاتھ سے کچھ ایسا سیاسی کھیل کھیلنے کے راستوں پر گامزن ہے جو نہ صرف حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں بلکہ اُن قوتوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتی ہیں جو ریاستی درجہ کی بحالی نہیں چاہتے ہیں، اپوزیشن اس حقیقت کو ابھی تک صدقدلی سے تسلیم نہیں کرپائی ہے کہ نیشنل کانفرنس کو زبردست عوامی منڈیٹ حاصل ہوا ہے جبکہ خود اپوزیشن کو اُس منڈیٹ کے مقابلے میں محض صفر عشاریہ صفر ایک فیصد بھی منڈیٹ حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
اس عینک سے ان کے رول اور بیانیہ کو جس کا تعلق عوام کو درپیش مختلف نوعیت کے اشوز سے ہے اور جن اشوز کے حوالہ سے حکمران نیشنل کانفرنس نے الیکشن کے دوران اپنے چنائو منشور میں عوام سے وعدے کئے ہیں پر اپوزیشن حکومت کو نہ صرف دبائو میں لانے کی زبردست کوشش کررہی ہے بلکہ اس نریٹو کو مسلسل اختیار کرکے دراصل اُس آئینی اور جمہوری پراسیس اور واضح عوامی منڈیٹ کو سبوتاژ کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ اپوزیشن سے وابستہ ایک اکائی چاہتی ہے کہ نیشنل کانفرنس حکومت مرکز کے تئیں ’جارحانہ‘ رویہ اختیار کرے اور جو کچھ مرکز نے چھین لیا ہے اُسے واپس حاصل کریں۔ چنائو منشور میں جووعدے کئے گئے ہیں انہیں پورا کرے۔
اپوزیشن سے وابستہ ایک اور اکائی کا ایک لیڈر آئے روز ایسے بیانات کا سہارا لے کر فضا کو مکدر بنانے کی ہرممکن کوشش کررہاہے اور اپنی اس کاوش کے زینہ پرکھڑے رہ کر عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہاہے کہ انہوںنے نیشنل کانفرنس کو اپنا منڈیٹ دے کر زبردست غلطی کی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس حکومت کو یہ ثابت کرناہوگا کہ وہ عوام کی مدد کررہی ہے۔ لیکن اب تک عمر حکومت سے کوئی ایک بھی فخریہ کارنامہ یاکارکردگی منسوب نہیں ہوسکی۔ حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنانے کی اپنی کوشش کے دفاع میں یہ اپنی پارٹی کی قیادت میں مخلوظ حکومت کی کاکردگی کے ساتھ موازنہ کرکے دعویٰ کررہا ہے کہ اُس دورمیں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان کو روزگار فراہم کیا گیا۔ یہ لیڈر موازنہ کرتے وقت اُس دور کے ایک وزیر جو وقت کی وزیراعلیٰ کا بھائی تھا نے اپنی پارٹی اور اقتدار میںشریک بی جے پی کو ’پارٹنر س ان کرائم‘ کے طور عوام کے دربار میں متعارف کرایا تھا کا حوالہ نہیںدیا۔
اپوزیشن ہو یا انفرادی سطح پر کوئی اور سیاستدان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مختلف اشوز کے تعلق سے اپنے خیالات کوزبان دے لیکن جو کچھ بھی کہے عوام کے وسیع تر مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے کو مقدم رکھا کریں۔ لیکن یہاں ہمارے کشمیرمیں سیاسی منظرنامہ کے حوالہ سے اُلٹی گنگا بہتی بھی ہے اور بہانے کی روایت بھی ہے۔
ریاستی درجہ مستقبل قریب میں بحال کیوںنہیں ہوگا، اسی کالم میںکچھ ہفتے قبل انکار یا تاخیر کی کچھ ایک مخصوص وجوہات کی نشاندہی کی کوشش کی گئی تھی ان میںکانگریس کی قیادت میں اپوزیشن انڈیا بلاک میںشرکت باالخصوص کانگریس لیڈرراہل گاندھی کو گودمیں بٹھائے رکھنے کی ترجیح اور جموںوکشمیر میںاپوزیشن کے ایک بڑے حصے جس کا ووٹ شیر خود نیشنل کانفرنس سے کہیں زیادہ ہے اور جس کو خصوصی پوزیشن باالخصوص بعض آئینی ضمانتوں کی منسوخی کے فیصلے کا دفاع کرنے پر جموںکاواضح منڈیٹ حاصل ہوا کے ساتھ مشاورت کرکے عوام کے وسیع مفادات میں مشترکہ طور کام کرنے کی سمت میں پہل نہ کرنا خاص طور سے قابل ذکر ہے۔
عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی یہ تاثر مستحکم ہوتا جارہاہے کہ جموںبی جے پی کی قیادت اگر چہ اپنے طور سے اپنی فہم کے مطابق کوئی قدم نہیں اُٹھاسکتی ہے بلکہ مرکزی قیادت کی مشاورت اور ہدایت کی تابع ہے لیکن اُس کی بحیثیت اپوزیشن کی بڑی پارٹی کے حقیقت اور اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ جب مرکزی قیادت ریاستی درجہ کی بحالی کی سمت میں فیصلہ کرنے کیلئے سٹیک ہولڈروں سے بات کرنے کی اصطلاح استعمال کرتی ہے تو واضح طور سے اس کی نگاہ میں بڑا سٹیک ہولڈر اس کی اپنی پارٹی کی جموں اکائی کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں۔
حکومت اور اس مخصوص اپوزیشن کے درمیان موجود اس خلیج کو پاٹنے کی سمت میں ترجیح طور سے حکومت کو کچھ اقدامات اُٹھانے کیلئے پہل کرنی چاہئے ، بے شک حکومت کو وادی اور چناب خطے اور پیر پنچال سے بھی کچھ منڈیٹ حاصل ہواہے لیکن اپوزیشن کو باقی سارے جموں خطے سے واضح اعتماد اور منڈیٹ حاصل ہوا ہے، اُس منڈیٹ کی خاص بات کے حوالہ سے کہا جاسکتا ہے کہ اس منڈیٹ کی بُنیاد ۵؍اگست کے فیصلے پر ہے جبکہ کشمیرمیں منڈیٹ کی بُنیاد ۵؍اگست کی مخالفت پر ہے۔ بہرحال ڈپٹی سپیکرشپ کی پیشکش کرکے اس سمت میں پہل کی جاسکتی ہے۔
نیشنل کانفرنس کی قیادت اور حکومت کیلئے لازم ہے کہ وہ جموں کے اس منڈیٹ کا احترام کرے اور جبکہ بی جے پی قیادت کیلئے لازم ہے کہ وہ کشمیر کے عوامی منڈیٹ کا احترام کرے۔ ایک دوسرے کی مخالفت اور بیان بازیوں کا راستہ اختیار کرنے سے جہاں حکومتی اور انتظامی سطح پر فیصلہ سازی اور عوام کے مفادات کی تکمیل کے حوالہ سے پیشرفت منفی طور سے متاثر ہوتی رہیگی وہیں اگلے پانچ سال اسی ان بن میں ضائع ہوجائیں گے جس کے نتیجہ میں عوام کے حقوق اور مفادات بہت بڑی کیجولٹی بن سکتے ہیں۔