بدھ, مئی 14, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

اس کا لم کا کوئی عنوان نہیں !

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-12-03
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

عموماً کہا جاتا ہے کہ ’عقل آتی ہے بشر کو ٹھوکر کھانے کے بعد‘، لیکن یہاں ہمارے کشمیرمیں زندگی کے کسی بھی شعبے کے تعلق سے ایسی کوئی شہادت دستیاب نہیں بلکہ ہر اعتبار سے اس کا اُلٹ ہی نظرآرہا ہے ۔ سیاسی اُفق کے حوالہ سے مجموعی صورتحال کا محض سرسری تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں کا سیاستدان جو ہر اعتبار سے ماہر سیاست، پیشہ ورسیاست اور تجربہ کار سیاستدان کا روپ دھارن کرچکا ہے ٹھوکر یں اگر کھا بھی جائے اُس ٹھوکر کی ٹیس وہ اپنے اندر اگرچہ محسوس تو کرتا ہوگا لیکن سیاسی غرور اس پر اتنا غالب ہے کہ وہ اس کا اظہار نہیں کرتا، بلکہ اس مقولہ پر سختی سے عمل پیرا رہتا ہے کہ ’میں نہ اپنی خو بدلوں گا اور نہ وضع‘۔
اس سوچ، اس اپروچ اور اس مخصوص فکرنے کشمیرکی سیاست کو خباثت کا اکھاڈہ اور مجمع بنادیا ہے، حصول اقدار کی سمت میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے وہ سب کچھ کیا اور کہا جاتا ہے لیکن جب اقتدار کی کرسی ہاتھ آجاتی ہے تو سارے وعدے اور عہد وپیمان کو حاشیہ پر رکھاجاتا ہے اور جن سیاسی کردارو ںکے خلاف عوام کا ووٹ اور اعتماد حاصل کیا جاتا ہے حصول اقتدار کے بعد انہی مخالف کرداروں کے ساتھ ہاتھ ملاکر انہیں اپنا دست تعاون بھی پیش کرتے ہیں اور انہیں اپنا سیاسی آقا کے طور کا درجہ بھی عطاکرتے ہیں۔
کشمیر کی حالیہ برسوں کی تاریخ ایسے ہی کئی ایک ملتے جلتے معاملات سے عبارت رہی ہے اورآج بھی آج کا کشمیر ماضی کے کشمیر سے ذرا بھی مختلف نہیں ہے۔
۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۲ء ، پھر ۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۴ء پھر ۱۹۷۵ء کا اکارڈ، پھر ۱۹۹۰ء کی عسکری اور علیحدگی پسندی کی تحریک کے دوران پیشہ ور سیاستدانوں کا کچھ اور کردار، ۱۹۹۶ء کے انتخابات کے بعد مختلف سیاسی نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کا قیام جن میں کانگریس کبھی نیشنل کانفرنس، کبھی پی ڈی پی تو کبھی پی ڈی پی …بی جے پی کی شریک اقتدار رہی، اس حکومتی شراکت داری کے دوران یہ سارے ایک دوسرے کو محب وطن، قوم پرست اور ایک دوسرے کو کیا کچھ القابات عطانہیں کرتی رہی لیکن ان سارے ادوارمیں سے اگر ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۶ء تک ادوار کے حوالہ سے کتاب کو بند کرکے حاشیہ پر رکھا جائے اور صرف ۱۹۹۶ء سے اب تک کی کتاب واقعات، معاملات ، طرزعمل ،سیاسی اورحکومتی سطح پر ذمہ دار وں کے طریقہ کار اور باالخصوص ان کے عہد وپیمان کو ہی سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی جستجو کی جائے تویہ امر واشگاف ہوگا کہ یہ ساری مدت کشمیرکیلئے کسی دردناک عذاب، ذلت، تضحیک، محرومی اور نااُمیدی سے کم نہیں۔
لیکن کیا کشمیر نشین کسی سیاسی لیڈراور کسی سیاسی پارٹی کو اس کا احساس ہے؟ نہیں، بلکہ برعکس اس کے کم وبیش سبھی پارٹیاں اور ان سے وابستہ لوگ اب اتنے تجربہ کار اور پیشہ ور بن چکے ہیں کہ وہ اپنا چولہ کسی کے احساس جگائے بغیر تبدیل کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
کیا لوگوں کو کشمیرکے اس مخصوص سیاسی منظرنامہ اور سیاسی قیادت کے دعویداروں کے قول وفعل کی جانکاری نہیں، بادی النظرمیں ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ برسہا برسوں سے کشمیر کے سیاسی میدان میں ہر صبح اور ہر شام وہی مخصوص چہرے دکھائی دے رہے ہیں اور کوئی نیا کشمیر کی سیاسی اُفق پر جلوہ گر نہیں ہوپارہاہے؟ کیا کشمیر روایت پسند، تقلید پسند اور چلو ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ سوچ اور طرزعمل کا خوگر بن چکا ہے ۔ اپنے اس کشمیرکی نفسیات میری فہم سے باہر ہے ،کشمیر میں اگر کوئی ماہر نفسیات ہے جو اس نفسیات کو بہتر طور سے سمجھ چکا ہے ، سمجھ رہا ہے تو ہمیں بھی سمجھائیں۔
بے شک کشمیر نے الیکٹورل تاریخ کے حوالہ سے غالباً پہلی مرتبہ ایک آواز ہوکر اپنے احساسات ،خواہشات اور توقعات کا برملا اظہارکیا، لیکن اس احساس اور خواہش کا احساس کیا اُن لوگوں کو ہے جو عوام کا ووٹ اور منڈیٹ حاصل کرکے اقتدار کی کرسیوں پر اب جلوہ گر دکھائی دے رہے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں حکومتی تشکیل کے دو مہینے ہوجائیں گے ، عالمی کیاخود ملکی سطح پر جو حکومتیں اقتدار میں آتی ہیں وہ اپنی حکومت کے سود ن کی تکمیل پر اپنی کارکردگی کا کارڈ عوام کے دربارمیں پیش کرتے ہیں۔لیکن یہاں منظرنامہ اُس کے اُلٹ ہے۔ مڈل کلاسز تک امتحانات کے شیڈول میںعوامی خواہشات کے احترام میںتبدیلی واحد کارنامہ ہے جو حکومت اپنی کارکردگی کے طور پیش کرسکتی ہے۔
حکومت اپنے چنائو منشور کی عمل آوری سے فی الوقت تک پیچھے ہٹ چکی ہے یا ہٹتی محسوس کی جارہی ہے۔ حکومت کی اس بے عملی کو پیپلز کانفرنس کے لیڈر اور اسمبلی میں اس پارٹی کے واحد ممبر سجاد غنی لون نے وزیراعلیٰ کے نام ایک تفصیلی مکتوب میں آسان لفظوں میں شرمناک سرنڈرقراردیا ہے جبکہ خط میں براہ راست عمرعبداللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے لون نے سوال کیا ہے کہ ’’کیا آپ خوفزدہ ہیں، یا سمجھوتہ کیا ہے ، آخر آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ وہ وزیراعلیٰ کی اہم مگر حساس نوعیت کے اشوز پر خاموشی پر حیرت زدہ ہیں باالخصوص دو اور کشمیری ملازمین کی نوکریوں سے برطرفی !سجاد غنی لون کے سوالات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن وزیراعلیٰ سے ان کا یہ مشورہ یا مطالبہ کہ ’الیکشن کے دوران آپ کی غراہٹ اب کہاں گئی‘ کیوں میں اور میرے کئی ہم خیال نحیف آواز سن رہے ہیں اور جائو دہلی کے سامنے ڈٹ جائو یعنی دوسرے الفاظ میں برسر جنگ ہوجائو دانشمندانہ اور مدبرانہ نہیں۔
بہرحال سجاد غنی لون اچھی طرح علمیت رکھتے ہیں کہ کشمیرکے حالات کیا ہیں اور ان حالات سے عہدہ برآں ہونے اور کشمیرکے وسیع تر مفادات کیا تقاضہ کرتے ہیں، لیکن بجائے اشتراک عمل اور سب کے ساتھ مل کر کشمیرکیلئے ایک مخصوص نریٹو وضع کرنے کے مخالفت اور تنقید سے کشمیرکا کوئی مفاد حاصل نہیں ہوگا۔ اُس وقت بھی کشمیر کے کسی مفاد کا تحفظ نہ ہوسکا جب خود سجاد غنی وقت کی وزیراعلیٰ کو بڑی بہن اور سربراہ مملکت کو اپنا بڑا بھائی کہہ رہے تھے۔ آج اگر وزیراعلیٰ اُسی مرکزی قیادت کوشال کا تحفہ پیش کرتے فوٹو سیشن منعقد کرارہے ہیں تو کیا ہوا، کشمیرنشین کم وبیش سارے سیاستدانوں کی یہ قدر مشترک ہے اور اسی قدر مشترک کے حوالہ سے وہ سارے دہلی کو اپنا اپنا قبلہ قرار دیتے آرہے ہیں، محبوبہ مفتی بھی اس صف میں شامل ہے۔
یہ قبلہ قرار دیتے دیتے اگر کشمیر اپنی ثقافت، تہذیب، شناخت ، خصوصی تشخص کھوچکا یا کھوتا جارہا ہے تواس کے لئے اوسط کشمیری ذمہ دارنہیں بلکہ یہاں کے سیاسی جرگے براہ راست ذمہ دار ہیں جو وقت وقت پر اپنا رنگ بدلتے رہے ہیں اور مختلف نوعیت کی مراعتیں اور نوازشیں بھی حاصل کرتے رہے ہیں اور اپنی کچھ کچھ غلطیوں کے محاسبہ سے تحفظ بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔
خدا ہمارے ان سبھی سیاسی جرگوں کو سلامت رکھیں، کیونکہ لوگ بدلنے کیلئے خود تیار نہیں!
۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

میڈم جی باتوں پر غصہ کیوں؟

Next Post

زمبابوے اور پاکستان کے درمیان دوسرا ٹی ٹوٹنی کرکٹ میچ کل کھیلا جائے گا

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
زمبابوے کی جیت پر صبح اٹھنے کے بعد بھی میں حیران ہوں، ڈیرن سیمی

زمبابوے اور پاکستان کے درمیان دوسرا ٹی ٹوٹنی کرکٹ میچ کل کھیلا جائے گا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.