حالیہ الیکشن اور حکومت کی تشکیل کے بعد نتائج ، اثرات اور ردعمل کے حوالہ سے جو محسوسات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں ان خدشات اور محسوسات کو اگر حقیقی تصور کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ جو منظرنامہ بتدریج اُبھرتا جارہا ہے وہ مایوس کن ہے۔
ریاستی درجہ کی بحالی کے تعلق سے جہاں حکمران جماعت اور اس کی لیڈر شپ پُر اُمید دکھائی دے رہی ہے کہ مرکزی قیادت اپنے اعلانات ، وعدوں کی تکمیل اور سپریم کورت کی ہدایت کی روشنی میں منطقی انجام تک پہنچائے گی وہیں حکمران جماعت کی اتحادی کانگریس کی یوٹی لیڈر شپ اس دعویٰ کے ساتھ اب سامنے آئی ہے کہ مرکزی سرکار جموںوکشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کے کچھ طاقتور افراد جموںوکشمیر کو اصل شکل میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ ان کی کوشش یہ ہے کہ مرکزی حکومت کچھ اہم محکموں کو اپنے حد اختیار میںرکھے جو کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی اور سرچشمہ ہیں،ا س مقصد کیلئے وہ کچھ ترامیم کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ کانگریس نے واضح کیا ہے کہ وہ اس درجہ کو قبول نہیں کرئیگی۔
یہ ایک اشو ہے جس کے تعلق سے الیکشن نتائج کے بعد موقفوں میں تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔ اس حوالہ سے کچھ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن نتائج حکمران بی جے پی کی توقعات کے مطابق سامنے آئے ہوتے توا ب تک ریاستی درجہ بحال ہوچکا ہوتا لیکن چنائو نتائج توقعات کے برعکس سامنے آئے ہیں لہٰذا اس کے لیے ایفائے عہد کلی طور سے ضروری نہیں۔
جہاں تک حکمران نیشنل کانفرنس کے اس حوالہ سے اپروچ کا تعلق ہے کہ اگر ریاستی درجہ وعدوں اور اعلانات کے مطابق بحال نہیں کیاجاتا ہے یا جزوی طور سے بحالی کاراستہ اختیار کیا جاتا ہے تو اُس صورت میں وہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی گریز نہیں کرے گی، کو یہ سیاسی حلقے جموں وکشمیر کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کے تعلق سے ایک اور خود کشی تصور کررہے ہیں۔ ایسا کیوں تصور کیاجارہاہے اس حوالہ سے وہ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اُس صورت میں ایک تو یہ معاملہ طوالت کی نذر ہو جائے گا، دوئم سپریم کورٹ نے اگر حکومت کی طرف سے پیش دلائل اور دوسرے وجوہات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس مخصوص معاملے جو جموں وکشمیر کے عوام کے نظریہ ، جذبات اور احساسات کا بے حد حامل ہے کو حاشیہ پر کھتے ہوئے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا ایک اور راستہ اختیار کیا تو یہ مخصوص معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوسکتا ہے۔
جہاں تک انتظامی اور ترقیاتی عمل کے حوالہ سے محسوسات کا تعلق ہے توان دونوں شعبوں میں بھی کشمیراور جموں کے تعلق سے کچھ کچھ تبدیلیاں محسوس کی جارہی ہیں۔ ایک اشو کا تعلق بجلی کی متوازن فراہمی سے ہے۔ کشمیر ایک بار پھر سنگین نوعیت کے بجلی بحران سے جھوج رہا ہے ۔ وقفے وقفے سے کٹوتی شیڈول کے مطابق بھی سپلائی منقطع کی جارہی ہے اور آنکھ مچولی اور غیر اعلانیہ کٹوتی کے راستے بھی اختیار کرکے اس ٹھٹھرتی اور یخ بستہ سردیوں کے ایام میں کشمیری آبادی کو روشنی اور گرمی کے متبادل آپشن سے محروم رکھا جارہا ہے۔اس کے برعکس جموںمیں سپلائی کا نظام مختلف ہے، ماسوائے شاخ تراشی اور لائنوں کی مرمت وتجدید کے لوگوں کو او رکسی کٹوتی کا سامنا نہیں ہے۔
صنعتی شعبے میں صورتحال کا چند روز قبل ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جائزہ لیاگیا، ڈائریکٹر انڈسٹریز جموںنے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ ۲۸۴۰۰؍ کروڑ روپے کے فینانشل پیکیج کو نئی مرکزی سرکار کی سینٹرل سکیم کے تحت جو جموں مخصوص ہے منظوری برقرار ہے ۔اس حوالہ سے کشمیر کہاں کھڑا ہے۔
یہ امرقابل ذکر ہے کہ جموںمیں حالیہ چنددہائیوں کے دوران چھوٹی ، درمیانہ اور بڑی صنعتی یونٹوںاورکارخانوںکے قیام کی سمت میں اچھی خاصی پیش رفت حاصل کی گئی ہے جبکہ فی الوقت بھی جموں کے صنعتی منظرنامہ کو اور زیادہ مضبوط، متحرک اور پیداوار کے اعتبار سے صنعتی نقشے پر جگہ بنانے کی سمت میں توجہ دی جارہی ہے جو ایک اچھی اور صحت مند علامت ہے کیونکہ جموںوکشمیر حد سے زیادہ کھپت والی سٹیٹ ہے جہاں بے روزگاری اور بے کار افراد کا شرح تناسب ہر طلوع آفتاب کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے لیکن سٹیٹ کی ایک اکائی جو اہم ترین بازو کی حیثیت رکھتی ہے کو اس شعبے میں مسلسل نظرانداز کرکے جموں وکشمیر کو ملک کے صنعتی نقشے پر اُس مقام تک نہیں لایا جاسکتا ہے جس کے خواب دونوں خطوں کے عوام عرصہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اس مخصوص شعبے کے تعلق سے پالیسی میں توازن اور یکسانیت کی ضرورت ہے عدم توازن اور یکطرفہ طرزعمل کی نہیں۔
کشمیر کو جموں کے راستے ملک کے ساتھ ریل کے ذریعے جوڑنے کا خواب آئندہ چند ہفتوں میں شرمندہ تعبیر ہونے جارہاہے۔ غالباً جنوری کے تیسرے ہفتے میں توقع کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم اس جوڑ کا افتتاح کریں گے، سرینگرجموں قومی شاہراہ کی چارلین میں کشادگی ، نئی ٹنلوں کی تعمیر کا جال، فلائی اورس کی تعمیر نے دونوں راجدھانیوں کے درمیان مسافت کو جہاں کم سے کم درجے تک پہنچادیا ہے وہیں اب اس شاہراہ پر سفر تکلیف دہ نہیں رہا بلکہ بہت حد تک آسان ہوچکا ہے۔ البتہ شاہراہ پر جگہ جگہ ٹول پلازوں کی موجودگی اور سفر کرنیو الے مسافروں سے وصولیاں انصاف کی حدود میں نہیں۔
بہرحال جموں اس تعلق سے بھی کشمیر سے آگے نکل رہا ہے۔ جموںمیں ایک علیحدہ ریلوے ڈویژن کے قیام کی منظوری مطالبے کے محض چند روز کے اندر اندر دی گئی، جموں میں ریلوے ڈویژن کے قیام سے کئی ایک معاملات میں لوگوں اور خود ریلویز کو بھی بہت ساری سہولیات دستیاب رہینگی، اس ڈویژن کے قیام کا خیر مقدم کیاجارہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ڈویژن کیلئے بھرتی عمل میں توازن اور خطوں کی مناسب نمائندگی کی طرف بھی دھیان دیئے جانے کی توقعات وابستہ رکھی جارہی ہیں۔
جو کچھ بھی سیاسی، وقتی اور انتظامی مصلحتیں اور مجبوریاں ہیں جموں اور کشمیر کے درمیان حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں جو سیاسی تقسیم بدقسمتی سے اُبھری ہے دونوں خطوں کی قیادت کو اس تقسیم پر اپنی اپنی بغلیاں بجانے اور اس تقسیم کو ایک نئی طرز کا جنون عطا کرنے کی کوششو ںیا اپروچ سے اجتناب کرنا چاہئے بلکہ ہر ممکن سطح پر اس تقسیم اور اس کے بطن سے پیدا ہورہے منفی اور غیر متوازن اثرات کو ختم کرنے کیلئے کمربستہ ہوجاناچاہئے۔ یہ تقسیم ختم کرنے کیلئے اگر انتظامی سطح پر تبدیلیوں کا بھی تقاضہ کرے توا س تبدیلی کو گلے کا ہار بنانے کیلئے نہ نیشنل کانفرنس اور نہ ہی بی جے پی کو اپنے قدم پیچھے ہٹانے چاہیں بلکہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کشمیر اور جموں کی ترقیات اور علاقائی یکجہتی کو مستحکم اور مضبوط بُنیادیں فراہم کرنے پر توجہ اور توانائی صرف کرنی چاہئے۔
۔