کسی بھی مکتب فکر سے وابستہ سیاستدان کو یہ حق بلکہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے نظریات کے تعلق سے عوام کے ساتھ رابطہ کریں، ان کے سامنے مختلف معاملات کے حوالہ سے اپنا موقف اور نقطہ نظر رکھے لیکن اگر سیاستدان اپنی آنکھوں پر کوئی مخصوص عینک چڑھاکر زمینی حقائق کو توڑ مروڑ کر یا غلط بیانی کا سہارا لے کر پیش کرے تو ایسے سیاستدان کے بارے میں اُردو ،ا نگریزی بلکہ دُنیا کی ہرلسانی لغت میں کچھ الفاظ مخصوص ہیں۔
سید الطاف بخاری کی قیادت میں اپنی پارٹی کو حالیہ اسمبلی الیکشن میں صفر کامیابی حاصل ہوئی۔ خود پارٹی سربراہ اپنے لئے کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔الیکشن میںناکامی کے بعد غالباً پہلی مرتبہ بخاری صاحب نے پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مجموعی صورتحال پراپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان خیالات کا نچوڑ یہ ہے کہ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے ووٹ ’’ناقابل حصول جذباتی نعروں اور وعدوں پر حاصل کئے لیکن بہت جلد وہ سیاسی اور اقتصادی محاذوں پر بے نقاب ہوجائیگی‘‘۔
’’۵؍ اگست ایک حقیقت ہے لیکن ہم کب تک اس پرماتم کناں بنے رہینگے۔ اس کے باوجودہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ لوگوں کی زمین اور ملازمتوں کے تعلق سے حقوق کا تحفظ ہو اور یہ ہماری انہی کاوشوںکاثمرہ ہے کہ گذشتہ ۵؍سالوں کے درمیان جموںوکشمیر میں نہ کسی نے زمین خریدی اور نہ ہی ملازمت حاصل کرلی اور یہی ہماری خدمت ہے جبکہ ہم عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کی جدوجہد کرتے رہینگے‘‘۔
بخاری صاحب نے تقریر اپنے پارٹی ورکروں کے سامنے کی جن میں سے اکثریت غالباً زمینی سطح پر بہتر معلومات نہیں رکھتے اور نہ ہی پارٹی ورکر چاہے کسی بھی پارٹی سے وابستہ ہوتقریر کے دوران اپنے لیڈر سے سوال کرنے کی کوئی صحت مند روایت کی داغ بیل ڈال سکا ہے۔ پھر بھی بخاری صاحب کو یہ کریڈٹ جاسکتا ہے کہ وہ مسلسل اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ زمین اور ملازمتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے میں انہوںنے اہم ترین کردار ہی ادا نہیں کیا ہے بلکہ بار بار دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس بارے میں مرکزی قیادت کو منوانے میں بھی کامیاب رہے ہیں، قطع نظر اس کے کہ اپنی پارٹی کے چنائو منشور میں وعدہ اس کے برعکس ہے۔
زمینی حقیقت کیا ہے؟ اگر بخاری صاحب کو علمیت نہیں یا جزوی جانکاری حاصل ہے تو دعویٰ سے قبل وہ زمین اور ملازمتوں کے تعلق سے حقائق معلوم کریں، ان کے پاس افرادی قوت ہے ، سیاسی اثرورسوخ ہے اور بہتر وسائل ہیں۔ پہلگام، گلمرگ، سونہ مرگ اور دوسرے کئی مقامات میں اراضیاں فروخت ہوتی رہی ہیں، یہ رپورٹ بھی ہے کہ ایک حاضر پولیس آفیسر نے ملازمت سے سبکدوش ہونے سے قبل زمینیں حاصل کی، پتنی ٹاپ میں واقع اراضی کے ساتھ یہی کچھ ہوتارہا،اگر چہ اس بار ے میں پنتھرز پارٹی کے لیڈر ہرش دیو سنگھ مسلسل چلا رہے ہیں، کم وبیش ہر ضلع میں بیرون جموںوکشمیر کے مختلف زمروں سے وابستہ لوگوں کو چور دروازوں سے جموںوکشمیر کے پشتنی باشندوں کے لئے مخصوص پوسٹوں پر تقرریاں عمل میںلائی، پوسٹ آفسوں میں کچھ خالی جگہوں پر بھی بیرون جموںوکشمیر سے وابستہ لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی گئیں ، فی الوقت بھی یہ سلسلہ جاری ہے، نہ ہوتا تو جموں یونیورسٹی میں زیر تعلیم گوجر اور بکروال طالب علم سڑکوں پر آکر احتجاج کا راستہ اختیار نہ کرتے۔
ان حقائق کے باوجود اپنی پارٹی کاسربراہ مسلسل دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے زمین اور ملازمتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنا۔ کیا اس نوعیت کے دعویٰ آنکھوں میںدھول جھونکنے کے مترادف نہیں ہیں؟ معلوم نہیں کہ اپنی پارٹی کا سربراہ اس نوعیت کے غلط دعویٰ کرکے آخر کس کے مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
الیکشن کے دوران کس پارٹی نے عوام کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے جذباتی نعرے نہیں دیئے اور یقین دہانیوں کے نئے پہاڑ کھڑے نہیں کئے۔ کوئی ان نعروں اور یقین دہانیوں پر کامیاب رہا تو شکست کسی کے مقدر میں آئی۔لیکن جووعدے عوام کے ساتھ کئے گئے اور جو جذباتی نعرے بلند ہوتے رہے ان نعروں اور یقین دہانیوں میںساری پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں ہی شامل رہی۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب اقتدار حاصل کرنے کے بعد عوام کے ساتھ کئے جاتے رہے وعدوں کا کس حد تک ایفاء ہوتا رہے گا اور کس حد تک انحراف کا راستہ اختیار کیا جاتا رہے گا۔
نیشنل کانفرنس نے مفت بجلی کا نعرہ بلند کیا لیکن سب سے پہلے اپنی پارٹی نے یہ نعرہ بلند کیا۔ اسی طرح باقی معاملات کے حوالہ سے بھی کوئی بھی پارٹی پیچھے نہیں رہی، آج کی تاریخ میں سبھی پارٹیوں کے چنائو منشوروں کا پھر سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو تقریباً ہر معاملے میں ان میں قدر مشترک نظرآرہی ہے۔ اس تناظرمیں یہ کہنا کہ ناقابل حصول نعرے دے کر اقتدار حاصل کیا گیا ہماری دانست میں درست نہیں کیونکہ حصول اقتدار اور پھر تحفظ اقتدار کے لئے سیاستدان اپنی آنکھوں پر کس رنگ کے چشمے لگا کر اور کون سے راستے اختیار کررہے ہیں وہ عوام سے پوشیدہ نہیں ۔
بہرحال جو کچھ بھی الیکشن کے دوران کہاگیا اور جو کچھ بھی اس کا محاصل رہا وہ سب سامنے ہے۔ اقتدار تو نیشنل کانفرنس کو حاصل ہوا۔ وعدئوں کی تکمیل کب تک ہوگی اس کا اتہ پتہ نہیں، البتہ عوام کا منڈیٹ واضح ، صاف وشفاف اور دوٹوک ہے، اس منڈیٹ کا احترام آئین کی بالادستی اور تقدس کو ماننے اور جمہوری طرز نظامت پر یقین کرنے کے دعویداروں پر لازم ہے۔ فی الحال ابھی تک اس احترام کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دی۔ اختیارات محدود ہیں اور ان کے ہوتے وعدوں کی تکمیل ممکن نہیں۔
کشمیرنشین اپوزیشن پارٹیوں کو فی الوقت تک اس زمینی حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے اور اپنی جگہ یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ عوام نے جس حکومت کی تشکیل کا خواب دیکھ کر اپنا اعتماد تھما دیا اُس خواب کی تعبیر ناممکن بنائی جارہی ہے۔ اپوزیشن اس کا برملا اعتراف کرکے حقوق اور اختیارات کی واپسی اور بحالی کی عوامی خواہش کی آواز میں اپنی آواز ملاتی، اپوزیشن ایک ایسا راستہ اختیار کرتی جارہی ہے جو عوام کے وسیع ترمفادات میںتو نہیں البتہ اپوزیشن کا یہ کردار ہر اعتبار سے ان کے حق اور مفادات کی تکمیل کی سمت میں جارہا ہے جو عوام کے منڈیٹ کا احترام کرنے کیلئے تیار نہیں۔