ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس ہی نہیں کررہی ہے بلکہ بی جے پی سمیت جتنی بھی سیاسی جماعتیں او ر سول سوسائٹی سے وابستہ ادارے ہیں وہ بھی ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مرکزی قیادت ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے اب تک متعدد مرتبہ یہ یقین دہانی کراچکی ہے کہ ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا البتہ ’مناسب وقت‘ پر۔ لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ مناسب وقت کب آئے گا اور اس مناسب وقت کی ہیت اور شکل وصورت کیسی ہوگی۔
مطالبات اور خواہشات اپنی جگہ، جذبات اور وابستگیوں کا اظہار بھی اپنی جگہ لیکن ایسے کوئی آثار مطلع پر دکھائی نہیں دے رہے ہیں کہ جن کو پڑھ اور دیکھ کر یہ قیاس کیا جاسکے کہ درجہ کی بحالی قریب قریب ہے الیکشن کی تکمیل اور عمرعبداللہ کی قیادت میں حکومت کی تشکیل کے سبھی مراحل تو اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکے ہیں، کابینہ اور اسمبلی نے قراردادیں بھی منظور کرلی ہیں، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی اپنے خطبے میں ان قراردادوں کا مثبت انداز اور لہجہ میں حوالہ دیا ہے لیکن حتمی فیصلہ مرکز کے حداختیار میں ہے اور مرکز فی الحال خاموش ہے۔
اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ فوری طور سے یا مستقبل قریب میں نہ ریاستی درجہ بحال ہونے جارہا ہے اور نہ ہی حکومت کے حد اختیار اور فیصلہ سازی کے تعلق سے کیا کچھ ہے اس پر ابھی ابہام جاری ہے۔ ایک نظام کو لیفٹیننٹ گورنر چلارہے ہیں جبکہ دوسرے کو حکومت۔ لیکن حکومت کی تشکیل کے بعد سے اب تک عوامی سطح پر پروٹوکول کے حوالہ سے جو کچھ محسوس کیاجارہاہے اور جو کچھ دیکھا جارہاہے وہ مایوس کن ہے۔ حکومت کی ساری قیادت اگلے روز پونچھ ضلع میںموجود تھی لیکن موجودگی کے باوجود وہ پروٹوکول سے محروم تھی۔ میٹنگ میںموجود بیروکریٹوں کیلئے قیام وطعام، ٹرانسپورٹ ، نقل ورسائل وغیرہ ہر طرح کا مکمل اور سو فیصد پروٹوکول دسیتات تھا لیکن چھ رکنی کابینہ پروٹوکول سے محروم تھی، یہ بھی اطلاع ہے کہ انہیں چائے پانی تک کیلئے بھی کوئی سہولت دسیتاب نہیں تھی۔
اس حوالہ سے واضح اور دوٹوک الفاظ میں پیغام عوام تک پہنچ گیا ہے۔ اگر چہ متعلقہ وزراء نے اس حوالہ سے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن جن لوگوں نے انہیں ووٹ دے کر منڈیٹ تفویض کیا ہے وہ بیروکریسی کی طرف سے اس سلوک اور رویہ کو اپنی اور اپنے حق رائے دہی کی تذلیل اور توہین سمجھ رہے ہیں۔
سنجیدہ فکر سیاسی اور حساس عوامی حلقے اس منظرنامہ کو دیکھتے ہوئے اپنی برہمی اور خفگی کے ساتھ ساتھ جن خدشات کو زبان دے رہے ہیں اُس کا نچوڑ یہی ہے کہ عمر حکومت زیادہ دیر تک نہیں چلے گی اور جب تک چلے گی اُس وقت تک اختیارات، فیصلہ سازی اور دوسرے امورات بشمول انتظامی معاملات کے موجودہ ہائی برڈ طریقہ کار جاری رہے گا۔
اس صورتحال میں لوگوںنے جو توقعات اور اُمیدیں وابستہ رکھ لی ہیں ان کی تکمیل کے بہت کم امکانات ہیں، دس سال بعد لوگوںنے اپنے درپیش معاملات اور مسائل کے حل کی سمت میں آئین اور جمہوریت کے دروازے اور سیڑھیاں استعمال کرتے ہوئے بہت ساری توقعات وابستہ کرلی کہ اب ان کے منتخبہ نمائندوںکے دروازے ان کیلئے کھلے رہیں گے اور وہ اپنے روزمرہ معاملات کا حل تلاش کرتے رہیں گے لیکن منتخبہ نمائندوں نے اپنے عوام کے لئے اپنے دروازے تو کھلے چھوڑ دیئے ہیں البتہ انہیں جن مسائل کا سامنا ہے اور جو معاملات اور مسائل گذرے دس برسوں کے دوران بیروکریسی شاہی کی قیادت میں ہمالیائی حجم اختیار کرچکے ہیں موجودہ صورتحال کے ہوتے غالباً اب حل ہوتے نظرنہیں آرہے ہیں۔
مایوسی کفر ہے لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ فی الحال لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ مایوسی کا یہ ماحول لوگوں کو مختلف معاملات کے حوالہ سے منفیات کی طرفبھی دھکیل سکتا ہے جو جموںوکشمیر کی مجموعی مفادات میں نہیں ہے ۔ادھر اپوزیشن سے وابستہ جماعتوں کا رول بھی اپوزیشن برائے اپوزیشن ہی نظرآرہا ہے۔ مختلف معاملات کے تعلق سے ان کا اپروچ اور رویہ معاندانہ تو محسوس کیاجارہا ہے لیکن ساتھ ہی اُس اپروچ کے پیچھے جو منطق اور دلیل ہے اُس میںکوئی معقولیت نظرآرہی ہے اور نہ ہی کوئی وزن۔
مثلاً لیکچراروں کی اسامیوں کیلئے جو نوٹفکیشن اجراء ہوئی ہے جموں اپوزیشن کی طرف سے اس کو لے کر نہ صرف لسانی پرستی کا ہوا کھڑا کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے بلکہ حکومت کو کشمیر مخصوص کا طعنہ دے کر یہ گھنائونا الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ یہ حکومت علیحدگی پسندوں کی حامی ہے۔ اِدھر کشمیر نشین اپوزیشن…پیپلز کانفرنس، پیلز ڈیموکریٹک پارٹی وغیرہ کی جانب سے کچھ ایسی بیان بازی کی جارہی ہے جس کا نہ کہیں سر ہے اور نہ پیر۔ کوئی عمر حکومت کو بی جے پی کی اصلی شکمی شریک قرار دے کر اپنی شکست خوردگی پر مرہم رکھنے کی جدوجہد کررہا ہے تو کوئی تاریخ اور واقعات کو مسخ کرکے کچھ اس طرح سے پیش کررہا ہے کہ جیسے ان کے اپنے عہد حکومت میں کشمیراور جموں میں دودھ کی نہریں بہاکرتی تھی، لوگوںنے رہائش کیلئے سونا کے محل تعمیر کرلئے تھے اور لوگوں پر پیلٹ برساکر یہ فرض کیاجا تا تھا کہ اصل میں لوگوں پر پھولوں کی برسات کی جارہی ہے۔
کیا عوام کے حقوق کے تحفظ اور وسیع ترمفادات میںجموںاور کشمیر نشین سبھی سیاسی پارٹیاں کچھ وقت کیلئے سیاست کی دکانیں بند نہیں کرسکتی، سیاسی جماعتوں کو یہ احساس کیوںنہیں ہورہا ہے کہ عوام زخمی ہیں، وہ سنگین نوعیت کے معاملات اور روزمرہ مسائل کے بوجھ تلے دبتے اور کچلتے جارہے ہیں، صرف شہری آبادیوں میں بے روزگاری کا شرح تناسب گذشتہ دوبرسوں کے دوران ۲۶؍فیصد سے بڑھ کر فی الوقت ۳۲؍ فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، مختلف معاملات کا بوجھ سہن نہ کر حرکت قلب کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتاجارہاہے، جبکہ فکر وغم سے نجات پانے کیلئے منشیات کا استعمال بڑھتا جارہاہے۔
لیکن سیاسی جماعتیں ہیں کہ نہ وہ اپنی خو بدلنے کیلئے تیار ہیں اور نہ وضع، حکومتی اور انتظامی سطح پر بیروکریٹ اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط بنانے کی راہیں ہموار کرنے میں اپنی تمام تر توانائی صرف کررہے ہیں، بدعنوانیوں اور کورپشن کے ساتھ ساتھ استحصالانہ طریقہ کار اوپرسے نچلی سطح تک اب معمول بن چکا ہے، لوگ خود کو دبا، کچلا ، بے بس اور محروم پارہے ہیں۔ یہ منظرنامہ پُرتشویش ہے جس کے نیچے بہت بڑا آتش فشان پرورش پارہاہے۔