زندگی کا ہر ایک شعبہ مسائل کے بھنور میں جھول رہا ہے ، سیاست، انتظامی، معاشرتی، اقتصادی، سماجی اور سب سے بڑھ کر عمل آوری کے حوالے سے جمو ںو کشمیر اپنی نوعیت کے سنگین بحرانوں سے جھوج رہا ہے، الیکشن کے انعقاد سے یہ اُمید پیدا ہو گئی تھی کہ اب عوام درپیش سنگین نوعیت کے مسائل اور بحرانوں سے نجات پائے گی لیکن الیکشن نتائج کے بعد حکومت کی تشکیل کے کئی روز گزرنے کے باوجود کسی بھی شعبے کے حوالے سے ذرہ بھر بھی حرکت نظر نہیں آرہی ہے۔
انتظامی سطح پر تقسیم کا افسوسناک پہلو عوام کے لیے سوہاں روح بنتا جا رہا ہے، اقتدار طاقت اور اختیارات کے حوالے سے جموں و کشمیر غالباً ملک کاواحد خطہ ہے جہاں بیک وقت کئی مراکز اپنی اپنی بالادستی اور دبدبہ قائم کرنا چاہتے ہیں ۔اگر چہ الیکشن سے قبل ہی اس قسم کے منظر نامہ کا کچھ کچھ احساس ہو رہا تھا لیکن یہ تقسیم در تقسیم بھی ہوگا اور ایک دھڑا منتخبہ آئینی اور جمہوری حکومت کی تشکیل کا احترام کرنے کی بجائے اپنی متوازن حکومت کے قیام کی دھمکی پر اُتر آئے گا اس کا تصور بھی نہ تھا۔
یہ منظر نامہ کیا کچھ کم تھا کہ کشمیر نشین کچھ ایک سیاست کار بھی میدان میں لنگر لنگوٹے کسے اُترآئے ہیں اور اس مخدوش منظر نامہ کی شکل مزید بگاڑنے کے لیے کوئی فکسڈ میچ کا فتویٰ صادر کر رہا ہے تو کوئی اپنی شکست خوردہ ہانڈی الائوپر چڑھا رہا ہے۔ یہ سب سے زیادہ افسوس ناک اور شرمناک ہے اور اگر ان کی روش یہی رہی اور اسی راستے پر گامزن ہوتے رہے تو عوام کو درپیش ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ جب فضا کو ہی مکدر اور مشکوک بنانے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہے گی تو توجہ کا عوامی اور انتظامی معاملات میں سدھار کی طرف مبذول ہونے کی بہت کم گنجائش باقی رہتی ہے۔
اس تعلق سے ابھی حالیہ چند روز میں کچھ ایسے معاملات بھی نوٹس میں آئے ہیں جن کے حوالے سے ایسی کوئی توقع نہیں تھی بانڈی پورہ میں ایک عوامی تقریب میں چار مختلف اسمبلی حلقوں کے منتخبہ ممبران شریک تھے، مقامی لوگوں کو درپیش معاملات کا جائزہ لے رہے تھے لیکن مقامی انتظامیہ غائب تھی۔ مقامی انتظامیہ نے تقریب سے اپنی غیرحاضری کی جو دلیل دی وہ بادی النظر میں ہی بھونڈی اورمضحکہ خیزہی نہیں بلکہ متعلقہ لوگوں کے ساتھ ساتھ چارمنتخبہ ممبران قانون ساز اسمبلی کی بھی توہین تصور کی جا رہی ہے ۔یہ معاملہ بھی انتظامی سطح پر واضح تقسیم کی طرف ہی اشارہ کر رہا ہے ۔
سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر محبوب مفتی نے آرٹیکل۳۱۱ کے تحت بڑی تعداد میں ملازمین کی برطرفی کے معاملات کے تعلق سے وزیراعلیٰ عمر اللہ کے نام ایک مکتوب بھیج دیا ہے جس میں اس سارے معاملے کا جائزہ لینے اور برطرف ملازمین کے ساتھ انصاف کرنے کے ساتھ ساتھ اس مخصوص اشو کے تعلق سے آئندہ کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ محبوبہ جی نے اپنے خط میں کہا ہے کہ اس طرز عمل سے خطے کے بہت سے خاندان تباہ ہوئے، اس تعلق سے انہوں نے جنوبی کشمیر کے ایک برطرف ملازم کا حوالہ دیا جس کو بعد میں عدالت نے تمام الزامات سے بری تو کر دیا لیکن اس بریت کے باوجود وہ ٹوٹ چکا تھا اور بالآخر مالک حقیقی سے جا ملا ۔
ممکن ہے کچھ حلقے اس نوعیت کے معاملات کو اپنے اپنے مخصوص مگر اختراعی عینک سے دیکھنے کی روش پر چل رہے ہوں مگر یہ معاملات انصاف کا تقاضہ کرتے ہیں۔ ایسے معاملات کا تعلق کسی فرد واحد سے مخصوص نہیں بلکہ گھرانوں،خاندانوں ، سماج اور کنبہ کے دیگرافرادسے بھی ہے، یہ انسانیت سے بھی جڑے ہوئے ہیں، محبوبہ مفتی کے اس خط کی روشنی میںمیڈیا… پرنٹ اور الیکٹرانک سمیت سوشل میڈیا پر بھی بحث شروع ہوئی ہے اور کم وبیش سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس نوعیت کے احکامات آئینی ضمانتوں کی صریح ضد ہیں، فرض بھی کرلیں کہ کوئی فرد قصور وار ہے، ذمہ دار ہے، بندوق اُٹھاکر علم بغاوت بلند کی، ملک وقوم کی سلامتی کیلئے خطرہ کا باعث بنا، لیکن سزا اس کے بھائی، بیٹے، باپ، مانوں، چاچا اور دوسرے یہاں تک کہ دور دراز کے رشتہ داروں کو کیوں؟
لیکن بد قسمتی یہ ہے بلکہ افسوسناک بھی کہ کچھ مخصوص فکر کے سیاسی مہرے ایسے اقدامات کو جائز ٹھہراتے رہے ہیں اور فی الوقت بھی جائز ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے منفی اثرات مختلف طریقوں سے مرتب ہو سکتے ہیں ۔یہ طریقہ کار بلڈوزر جسٹس سے مماثلت ہے جس کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں اور ایسے کسی بھی طرز عمل اور طریقہ کار کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا ہے۔
ہر ایک حساس، باشعور اور ذمہ دار شہری کی یہ بڑی خواہش ہے کہ جموںو کشمیر جس پُرآشوب دور سے گزرا اور جس دور نے کم و بیش ہر شہری کو کسی نہ کسی حوالے سے زخم دیئے ہیں ،خاندانوں کے خاندان تباہ ہوئے ،بستیاں اجڑتی رہی، سینکڑوں قبرستان آباد ہوئے ،بے شک ان پر آشوب حالات میں ایک مخصوص فکر کے طبقے نے آسودگی حاصل کی لیکن بحیثیت مجموعی تقریبا ًسو فیصد آبادی چھلنی ہی ہوتی رہی۔ لیکن جموں و کشمیر میں یہ حالات کیسے پیدا ہوئے، کن لوگوں نے ان حالات کو جنم دینے میں کیا کچھ کردار ادا کیا ،دہلی کا خود براہ راست رول اور کردار کیا رہا اور سب سے بڑھ کر اگر کوئی تحریک جنم پا گئی تو اس کے پیچھے خود ماضی کے حکمرانوں نے کیا رول ادا کیا اُس کو آج کی تاریخ میں کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اُسی طرز عمل سے مماثلت اقدامات اور فیصلے لئے جاتے رہے ہیں جو عوام کے لیے باعث تکلیف ہی نہیں بلکہ سسٹم پر بدظنی ان کی طرف سے مہر تصدیق ثبت کرنے کے مترادف ہے۔
بخشی غلام محمد مرحوم نے دہلی کی آشیرواد سے شیخ عبداللہ کا تختہ اُلٹ دیا اور بیک جنبش قلم اس دور کے تقریبا ۶۰؍ اعلیٰ بیروکریٹوں کو برطرف کر دیا۔ شیخ عبداللہ اکارڈ کے بعد واپس آئے تو ان برطرف بیروکریٹوں کو انتظامیہ میں بحال کر دیا گیا ۔مفتی محمد سعید نے کئی درجن افسران اور ملازمین کو ڈیڈ وڈ( ناکارہ) قرار دے کر برطرف کر دیا لیکن عدالت نے اکثر کے خلاف حکومتی کارروائی کالعدم قرار دی اور ان برطرف ملازمین کو واپس بحال کر لیا گیااب گزشتہ چند برسوں سے اسی طریقہ کار کو ایک نئے لبادے میں گلے کا ہار بنایا گیا ۔چھوٹا سا سوال ہے کہ ماضی میں اس نوعیت کی کاروائیوں اور غیر ائینی اقدامات کو عملی جامہ پہنا کر سٹیٹ نے کیا حاصل کیا، کس قومی مفاد کی آبیاری کی گئی۔
اس سارے پس منظر میں یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جموںوکشمیرفی الوقت ریاست نہیں بلکہ یوٹی ہے لیکن وسیع تر مفادات کا بھی تقاضہ ہے اور آپسی اشتراک عمل کو وقت اورحالات کی اہم ترین ضرورت سمجھتے اور محسوس کرتے ہوئے جموں وکشمیر میں اقتدار اور اختیارات کے جو علیحدہ علیحدہ مراکز قائم کئے جارہے ہیں ان مراکز پر تالے چڑھائیں جائیں اور مخصوص سیاسی عینک کو اُتار پھینک کر وزیراعظم کے اس نعرہ سب کا ساتھ سب کا وشواس کی اگر کوئی اہمیت اور حساسیت ہے تو اس کو جموں وکشمیر کا اساس قرار دیاجائے۔