اگلے مالی سال کے لئے بجٹ تخمینہ پارلیمنٹ میں پیش۔ اگر چہ بجٹ پر ایوان میں زیادہ بحث کا موقع نہیں ملا تاہم وزیرخزانہ نے بجٹ کے حوالہ سے جن شعبوں کی نشاندہی کی ہے ان کا سرسری جائزہ لینے پرکچھ اطمینان بھی محسوس کیاجارہاہے جبکہ کچھ شعبوں کے بارے میں بے اطمینانی کا پہلو بھی محسوس کیاجارہاہے۔
بجٹ کی روشنی میں جموں وکشمیر کا مالیاتی خسارہ ۹۵۷۰ کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے جو بے اطمینانی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہ خسارہ اگر چہ سالہاسال سے متواتر ہے لیکن اس مالیاتی خسارہ کو پاٹنے کیلئے کچھ نئے اصلاحاتی اقدامات ناگریز ہیں کیونکہ مالی خسارہ کے رہتے مجموعی ترقی کی رفتار منفی طور سے اثرانداز ہوتی ہے۔
پہنچایتی اداروں، بلاک ڈیولپمنٹ او ر ضلع ترقیاتی کونسلوں کی نشوونما وغیرہ کیلئے بجٹ میں بحیثیت مجموعی ۱۵۸۴؍ کروڑروپے مختص کرکے ایک بہت بڑا قدم اُٹھایا گیا ہے۔ ان اداروں کا تعلق جمہوری اداروں اور نظم ونسق سے ہے، اس تعلق سے ان کی ترقی کی طرف توجہ دینے اور ان کے حوالہ سے عوامی شرکت کو یقینی سمت عطا کرنے کیلئے جو تجاویز پیش کی گئیں ہیں غالباًجموں وکشمیر کی اب تک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھنے میںآرہاہے۔ یہ ادارے مضبوط ہوں گے تو جمہوریت اور اس سے وابستہ سیٹ اپ کو بھی اور زیادہ مضبوط بنانے کی مزید راہیں ہاتھ آجائینگی۔
جموںوکشمیر میں تعلیم کے شعبے کیلئے ۱۱۸۳۲؍ کروڑ روپے مختص کرکے ترجیحات کی طرف واضح اشارہ مل رہاہے اور یہ پیغام بھی واضح طور سے سامنے آیا ہے کہ حکومت تعلیمی سیکٹر کی تیز رفتار ترقی کیلئے عہد بند ہی نہیں بلکہ ا س حوالہ سے اپنی کوششوں اور توجہ کو مکمل سنجیدگی کے ساتھ مرکوز ہورہی ہے۔ وزارت داخلہ اور اس سے وابستہ شعبوں کیلئے بجٹ میں مخصوص ۱۰۸۳۱؍ کروڑروپے کے مقابلے میں تعلیمی شعبے کیلئے مختص رقومات کئی اعتبار سے اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ راحت بخش بھی ہیں۔
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حالیہ برسوں میں اس مخصوص شعبے کی ترقی کی جانب زیادہ سنجیدہ توجہ مرکوز نہیں کی جاتی رہی، سینکڑوں تعلیمی اداروں کو اپنی عمارتیں نہیں، جبکہ جن عمارتوں میں تعلیمی ادارے قائم ہیں ان میں سے اکثریت یا تو خستہ حالت میں ہے، یا زیرتعلیم بچوں کیلئے کوئی خاص سہولیت دستیاب نہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ حالیہ برسوں میں جموںوکشمیر میں نجی سطح پر تعلیمی ادارے قائم کرنے کا ایک وسیع جال پھیلا یا گیا جہاں یہ پرائیوٹ ادارے بلاکسی شک وشبہ کے بہتر تعلیم بچوں کو دے رہے ہیںلیکن ان کی من مانیاں اور لن ترانیاں بھی تمام تر حدود کو پھلانگتی جارہی ہیں۔ کبھی فیس کی شرحوں میں من مانا اضافہ، کبھی بس فیس کے حوالہ سے لڑائی جھگڑا تو کبھی نصابی کتب اوروردیوں کی خریدایوں کے حوالہ سے شرائط کی قیدا ور پسند کا عمل دخل والدین کیلئے سوہان روح بن چکا ہے۔
پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی من مانیاں اور لن ترانیاں اب سماجی اور اخلاقی حدود اور اقدارسے بھی بہت آگے نکل چکی ہیں، فیس کمیٹی نے ابھی چند روز قبل بس کرایوں میں ۱۲؍ فیصد اضافہ کرنے کی سفارش منظور کی لیکن پرائیوٹ تعلیمی اداروں اینڈ کمپنیوں نے اس فیصلے کو بھی چیلنج کرکے مسترد کردیا ہے۔ بہرحال اس ضمن میں کئی دوسرے معاملات بھی وابستہ ہیں جن پر اظہا ر خیال کسی اور وقت لیکن بجٹ میں تعلیمی شعبے کیلئے جن بُنیادوںپر بجٹ مرتب کی گئی ہے ضروری یہ ہے کہ اور ماضی اور حال کے حوالہ سے مشاہدہ اور تجربہ یہی پیغام واضح کررہاہے کہ جہاں قریبی نگرانی ضروری ہے وہیں درس وتدریس کی ضرورت ، اہمیت اور حال اور مستقبل کے تعلق سے قوم کے معماروں کی ذہنی ، جسمانی اور تعلیمی نشو ونما او ربہتر ماحول کی دستیابی کی طرف ترجیحاتی طور پر توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔
سول سوسائٹی سے وابستہ شخصیات یہ سوال کررہی ہیں کہ اگر دہلی کے سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ ملک کی چند دوسری ریاستوں میں سرکاری تعلیمی ادارے بچوں کو جدید ترین تعلیم وتربیت سے آراستہ کررہے ہیں اوران کے مقابلہ آرائی امتحانوں میں اچھے نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں تو جموں وکشمیر کا سرکاری تعلیمی سیکٹر پسماندگی اور بچھڑے پن کی دلدل میں کیوں دھنستا ہی چلا جارہاہے؟ اگر چہ حالیہ چند برسوں میں نتائج کا شرح تناسب بہتر ہوا ہے لیکن قومی سطح پر کامیابی کا جو شرح تناسب فی الوقت ہے اس تک پہنچنے کیلئے ابھی بہت ساری محنت اور توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔
بجٹ میں ڈل جھیل اور نگین کی عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے الگ سے رقم مختص کی گئی ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ جب ان دو جھیلوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے بھاری سرمایہ مختص رکھاگیا ہو لیکن اتنی بھاری سرمایہ کاری کے باوجود مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں۔ حالانکہ گذرے برسوں کے دوران غیر ملکی ساخت کی جدید ترین مشینری اور پلانٹ بھی نصب کرائے گئے ہیں لیکن فی الوقت تک کامیابی ندارد۔
سوال یہ ہے کہ جو رقم حالیہ برسوں کے دوران مختص کی جاتی رہی ہے اس کے مطلوبہ نتائج کیوں ابھی تک برآمد نہیں ہوئے ہیں، یہ سوال بھی واجبی ہے کہ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مختص رقم کا خرد برد معمول بن چکاہے اور ڈل جھیل اور نگین وغیرہ بہت سارے لوگوں اور کچھ مخصوص اداروں کیلئے سونا کی کان ثابت ہورہی ہے؟ حکومت اس سوال کا جواب خود تلاش کرسکتی ہے اور جواب تلاش کرنے کی اخلاقی ضرورت بھی ہے۔
بہرحال بحیثیت مجموعی بجٹ اطمینان بخش ہے البتہ کچھ شعبوں کے تعلق سے کچھ سوالات اُبھر کرسامنے آرہے ہیں جنہیں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔