منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

یہ سیاستدان جنگ کیوں چاہتے ہیں

مرکز کے ساتھ ٹکرائو سے کشمیر کو حاصل کیا ہوگا؟

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-10-26
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

اپنی قیادت میں حکومت اور کابینہ کی جزوی تشکیل کے بعد پہلے مرحلہ میں وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے مرکزی قیادت کے ساتھ دہلی جاکر ملاقاتیں کیں اور جموں وکشمیرمیں مختلف شعبوں اور امورات کے تعلق سے انہیں یوٹی کی ضرورتوں اور فوری خواہشات کے بارے میں مشاورت کی۔ عمرعبداللہ وزیراعظم نریندرمودی، وزیرداخلہ امت شاہ ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر رسل ورسائل نتن گڈکری کے ساتھ ملاقی ہوئے۔
ا ن ساری شخصیات کے ساتھ کن امورات پر تبادلہ خیالات ہوئے، کیا مانگا گیا، کیا پیش کیاگیا اور مرکزی قیادت کی جانب سے کیا جواب دیاگیا ان سبھی کے بارے میں فی الوقت تک کوئی سرکاری بیان اجرا نہیں کیاگیا البتہ مرکزی قیادت کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے فوٹو سیشن نظروں سے ضرور گذرے۔
البتہ ان ملاقاتوں کے تعلق سے جموں وکشمیر کے چند ایک سیاسی حلقوں کی ابروئیں تن گئی ہیں، کسی نے دبی زبان میں تنقید کی تو کسی نے عمر عبداللہ پر اس تعلق سے بھی نہ صرف یوٹرن لینے کا الزام لگایا بلکہ ان کے دہلی سفر یا مشن کو ’’مائی لارڈ‘‘ کے دربار میں معذرت خواہانہ حاضری قرار دے کر اس کو عوام کے ساتھ اعتماد گھات تک کہہ دیا۔
ان حلقوں کی تنقید اس بُنیاد پر ہے کہ عمرعبداللہ نے الیکشن کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدارمیں آنے کی صورت میں اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جائیگی جس میں ریاستی درجہ کی بحالی، دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵؍ اے کی واپسی ایسے معاملات کے تعلق سے مطالبہ کیا جائے گا۔ لیکن عمر نے کابینہ کا سہارا لے کر ریاستی درجہ کی قرارداد منظور کروائی اوراس کو بغل میں دباکر دہلی پہنچ گئے۔ اس تعلق سے ان کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسمبلی میں ریاستی درجہ اورآئینی ضمانتوں کی بحالی کے تعلق سے این سی نے وعدہ کیا تھا کہ اسمبلی کے پہلے سیشن میں قرارداد پیش کی جائیگی لیکن فرار کا راستہ اختیار کرکے کابینہ کا سہارالیاگیا۔
اپوزیشن میں بیٹھے حضرات کو یہ اختیار بھی حاصل ہے اور جمہوری طرزسیاست کی روشنی میں حق بھی کہ وہ اپنے موقف اور نظریہ کے مطابق حکومت کی تنقید کرے اور رگڑے بھی دے لیکن ہوا میں تیر چلانے یا تنقید برائے تنقید کے جذبے کے تحت نہیں۔ اس حکومت کو ۹۰ میں سے تقریباً ۵۵؍ اسمبلی حلقوں کا اعتماد حاصل ہے جبکہ تنقید کرنے والوں کی تعداد دو یا تین سے زیادہ نہیں۔ لیکن اس تنقید کو وزن یا منطق عطاکرنے کیلئے جو انداز بیان اختیار کیا جارہا ہے اُس کا نچوڑ اور لب ولباب یہ ہے کہ عمرعبداللہ کو کشمیر کا اعتماد حاصل ہے اور اس اعتماد کو بُنیاد بناکر انہیں چاہئے کہ وہ دہلی کو اُسی لب ولہجہ میں جواب دے جس لب ولہجہ میں دہلی گذشتہ دس سال باالخصوص ۲۰۱۹ء اگست سے کشمیرکے حوالہ سے اختیار کرتی رہی ہے۔
یعنی دوسرے الفاظ میںیہ لوگ چاہتے ہیں کہ عمر کی حکومت مرکزی سرکاری کے ساتھ ٹکرائو کا راستہ اختیار کرے۔ا س تعلق سے رکن پارلیمنٹ انجینئر رشید جس کی اسمبلی میں اپنے بھائی کی صورت میں ایک حلقہ کی نمائندگی حاصل ہے جبکہ سجاد غنی لون حلقہ ہندوارہ سے اپنی پارٹی کے واحد اکیلے اُمیدوار کی حیثیت سے نمائندگی کے دعویدار ہیں چاہتے ہیں کہ عمر کی حکومت مرکز کے ساتھ دو دو ہاتھ کرے!
ٍ سوال یہ ہے کہ کیا نیشنل کانفرنس یا کسی دوسری پارٹی نے اپنے اپنے چنائو منشوروں میں مرکز کے ساتھ محاذآرائی اور ٹکرائو کاراستہ اختیار کرنے کی حمایت میں یا موقف پر لوگوں سے ووٹ مانگے، خود انجینئر رشید اور سجاد غنی لون نے بھی نہیں۔ کیا یہ دونوں حضرات اور وہ دوسرے جوان کے خیالات یا طرزسیاست سے متفق ہیں چاہتے ہیں کہ جن ازیت رسانیوں، کرب وبلا، ہراسگی، تشدد، بندوق کی گن گرج ، آتشزنی اور اس نوعیت کے دوسرے فساد زدہ راستے اختیار کرکے کشمیرکی آبادی پھر سے لہو لہان بنی رہے؟
پھر عمر سے ہی ٹکرائو اور محاذآرائی کا مطالبہ کیوں؟ انجینئر رشید جس نے پالیمانی انتخابات میں چار لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کئے اپنے ان ووٹروں کی محض تیس، چالیس فیصد کو ہی جمع کرکے سڑکوں پر لائے اور اسی طرح سجاد غنی لون بھی اپنے چند ہزار حمایتی ووٹروں کو سڑک پر لاکر ریاستی درجہ آئین کی دفعہ ۳۷۰، ۳۵؍ے اور خصوصی پوزیشن کی بحالی کی مانگ کو لے کر شروعات کیوںنہیں کریں گے؟
کشمیر نے ۳۵؍ سال تک ازیتیں اور درد ناک عذاب سہا،کثیر تعداد میں اس نے اپنے لخت جگروں کو کھودیا، ہزاروں لاپتہ ہیں، لاتعداد قبرستان کشمیرکے چپے چپے میںموجود ہیں ، مقدس ترین عبادت گاہوں تک کی بھی بے حرمتی ہوتی رہی، ان سارے معاملات کا احاطہ کرنے بیٹھ جائیں تو ضخیم کتاب کا بوجھ بھی اُٹھایا نہیں جاسکے گا، المیہ تو یہ ہے کہ اُس مخصوص کشمیرکو بعض سیاستدان محض اپنی ذاتی ہوس، اقتدار پرستی اور اپنی اپنی بزنس کا تحفظ حاصل کرنے کیلئے کشمیر اور کشمیری عوام کو ایک بار پھر قربانی کا بکرا بنانے چاہتے ہیں۔
کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ کشمیرکی سرزمین فلسطین کا غزہ، افغانستان کا تورا بورا، حوثیوںکا یمن ، بشار الاسد کا دمشق ، پوتن کا یوکرین ، نکسلیوں کا شمال مشرق یا منی پور بن جائے۔ یہ لوگ کشمیر کے یک زبان فیصلے اور اُس فیصلے کے پیچھے دردناک عذا ب سے لگے زخموں کی ٹیس کیوں محسوس نہیں کرتے اور کیوں اُس کا احترام نہیںکرتے۔ مانا کہ شیخ خاندان ان کی پہلی یا آخری پسند نہیں کیونکہ ہر سیاستدان کا اپنا ایک مخصوص آقا ہوتا ہے اور وہ اُس آقا کے تئیں اپنی وفاداری کا قدم قدم پر یقین ہی نہیں دلاتا رہتا ہے بلکہ یہ یقین دہانی اُس کی مجبوری بن جاتی ہے لیکن ان کی اس ناپسندیدگی کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے ان کے ہاتھ میںاپنا اعتماد دیا، کیا فی الوقت یہی زمینی حقیقت نہیں؟
نیشنل کانفرنس اور وقت وقت پر اس کی قیادت نے کشمیرکے تعلق سے جو کرداراداکیا اور مختلف حساس نوعیت کے معاملات پر جس معذرت خواہی اور سرنڈر کا راستہ اختیا رکرتی رہی یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ کشمیرکے ہاتھ سے اگست ۲۰۱۹ء تک بہت کچھ چھینا جاچکا تھا یہاں تک کہ دفعہ ۳۷۰کو گھس گھس کر اندر ہی اندر سے پہلے وزیراعظم آنجہانی جواہر لال نہرو کی سرپرستی میں کھوکھلا بنادیاگیا تھافرق صرف یہ ہے کہ موجودہ حکمران جماعت نے اس کاغذ کے ناکارہ ٹکڑے کو اکھاڑ پھینک کراپنی جذباتی سیاست میںتبدیل کردیا۔ اس حوالہ سے یہ بات حیران کن ہے کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت مسلسل دعویٰ کرتی رہی کہ انجینئر رشید کو پہلے سے معلوم تھا کہ اگست میں کیا ہونے جارہا ہے جبکہ انجینئر جوابی وارکرتے ہوئے دعویٰ کررہا ہے کہ این سی کو پیشگی بتادیاگیا تھا، پھر جیل تو بس آڑ تھی!
لیکن تاریخی حقیقت جو کچھ بھی ہے، کردار جو کچھ بھی رہے ہیں مرکز اور ریاست ٹکرائو کی متحمل نہیںہوسکتی۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

ہمیں سکون سے جینے دیں…پلیز!

Next Post

ساڑھے 6 سال بعد ڈیوڈ وارنر کے آسٹریلوی کپتان بننے پر عائد پابندی ختم

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
ڈیوڈ وارنر اور مچل مارش کی پاکستان کیخلاف ریکارڈ شراکت

ساڑھے 6 سال بعد ڈیوڈ وارنر کے آسٹریلوی کپتان بننے پر عائد پابندی ختم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.