حیدر آباد//(ہارون رشید شاہ)
’صحیح پوشن ‘ دیش روشن‘ محض ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک صحت مند معاشرے کی ضرورت ہے… ایک ایسی ضرورت جس کو پورا کرنے کیلئے نیشنل انسٹچوٹ آف نیوٹریشن (این آئی این) گزشتہ۶۶برسوں سے محو جد و جہد ہے ۔
حیدر آباد میں قائم ملک کے ایسے واحد ادارے کے قائمقام سربراہ ‘ڈاکٹر سانتا سابج داس کاکہنا ہے ’’ہم جو کام کررہے ہیں اس کا براہ راست تعلق ملک کے لوگوں کی صحت اور غذا سے ہے‘‘۔ان کے مطابق ’’ہم صحت مند، پائیدار اور ماحول دوست غذا اور طرز زندگی کے ذریعے ملک میں ہر قسم کی غذائی قلت کو ختم کرنے کیلئے ریسرچ میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن (این آئی این) کی بنیاد سر رابرٹ میک کیریسن نے سال۱۹۱۸ میں پاسچر انسٹی ٹیوٹ، کونور، تمل ناڈو میں ایک کمرے کی لیبارٹری میں ’بیری بیری‘انکوائری یونٹ کے طور پر رکھی تھی۔ سات سال کے قلیل عرصے میں یہ یونٹ’ڈیفی شنسی ڈیزیز انکوائری‘ میں تبدیل ہوگیا اور بعد میں۱۹۲۸میں ، مکمل طور پر ’نیوٹریشن ریسرچ لیبارٹریز‘(این آر ایل) کے طور پر ابھرا جس کے پہلے ڈائریکٹر ڈاکٹر میک کیریسن تھے۔
اس ادارے کو۱۹۵۸میں حیدرآباد منتقل کیا گیا اور۱۹۶۹ میں اپنی گولڈن جوبلی پر اس کا نام تبدیل کرکے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن (این آئی این) رکھا گیا ۔
ڈاکٹر داس کاکہنا ہے این آئی این کا مقصدصحت مند، پائیدار اور ماحول دوست غذا اور طرز زندگی کے ذریعے ہندوستان میں ہر قسم کی غذائی قلت کو ختم کرنا۔ان کے مطابق ملک میں غذائت کے جو پروگرام ہیں ان کو این آئی این کی فراہم کردہ معلومات کو دھیان میں رکھ کر وضع کیا جاتا ہے ۔
این آئی این لوگوں کیلئے وقتاً فوقتاًمعلومات فراہم کرتا رہتا ہے کہ انہیں صحت مند رہنے کیلئے کیسی غذ ا ئیں لینی ہے ں۔
قائمقام سربراہ کاکہناہے ’’ہم ملک بھر سے غذا کے نمونے حاصل کرکے ان کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہیں اور پھر لوگوں کیلئے راہنما خطوط بھی فراہم کرتے ہیں ‘‘۔ان کاکہنا ہے ’’صحت مند غذاجہاں بیماریوں کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے وہیں اس ملک میں متوقع عمر بھی بڑھ سکتی ہے ‘‘۔
این آئی این جو تحقیق چلتی رہتی ہے اس سے ملک بھر کے متعدد ادارہ مستفید ہوتے ہیں ۔یہ ایسے ادارے ہیں جن کا براہ راست تعلق ان غذائی اجناس اور کھانے پیسے کی اشیا سے ہے جو لوگوں کے روز مرہ زندگی میں استعمال ہو تی ہیں۔
اس ادارے کی فراہم کردہ معلومات قومی ریگولیٹری اداروں ‘ جن میں ایف ایس ایس اے آئی ‘نیتی آیوگ (کم از کم اجرت کا تعین)، ڈبلیو سی ڈی (آئی سی ڈی ایس) شامل ہیں‘کے ذریعہ وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک حالیہ سروے سے این آئی این نے دیکھا کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ تجویز کردہ حد سے کہیں زیادہ مقدار میںاناج کھا رہا۔اس کے علاوہ اضافی طور پہ مجموعی کیلوری کا۱۰فیصد سے زیادہ حصہ چپس، بسکٹ‘چاکلیٹ، مٹھائیاں اور جوس جیسے کھانے سے حاصل کرررہا ہے جبکہ حفاظتی غذائیں جیسے پھلیاں، دودھ، میوے، سبزیاں اورپھل کا کم استعمال کر رہا ہے ۔
اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آگئی کہ شہری آبادی اوردیہی علاقے غیر صحت مند غذائی عادات کی وجہ سے غذائی قلت اور غیر متعدی بیماریوں (این سی ڈیز) کا سکارہیں۔
این آئی این کے جائزے میں دیکھا گیا کہ شہری آبادی کا زیادہ تناسب (۳۱ فیصد) اوردیہی (۱۶فیصد) بالغ افراد زیادہ وزن کے مسئلہ کا شکار ہیں ‘ اس کے علاوہ شہری آبادی میں۱ء۵۳؍ اور دیہی آبادی میں۸ء۱۸ موٹاپا اور پیٹ کا موٹاپارائج ہے ۔
اس صوتحال کے پیش نظر این آئی این نے ’دن کیلئے پلیٹ ‘(مائی پلیٹ فار دا ڈے) کا ایک خاکہ تیار کیا ہے تاکہ عام ہندوستانیوں میں صحت مند غذائی عادات کی حوصلہ افرائی کی جائے ۔
’مائی پلیٹ فار دا ڈے‘ کے بارے میں این آئی این کے ایک اور سائنسدان‘ ڈاکٹر سبھا راؤ کاکہنا ہے ’’یہ خاکہ کھانے کے مختلف گروپ کیلئے مختلف قسام کے کھانے ان کی غذائی تغذیہ کی ضروریات کے معیار کے مطابق تجویز کرتا ہے‘‘۔ان کے مطابق این آئی این نے عام لوگوں کی بہتر صحت کیلئے ۱۷ راہنما خطوط تجویز کئے ہیں ۔
گرچہ این آئی این کھانے کی عادات اور مختلف غذاؤں میں پوشیدہ عام لوگوں کیلئے فوائد کی جانچ کرکے اپنی سفارشات بھی پیش کرتا رہتا ہے‘ جن پر زیادہ تر سرکاری سطح پر عمل در آمد بھی کیا جاتا ہے‘ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ملک کی آباد کا ایک بڑا حصہ ان سفارشات کو نظر انداز کرکے بازار میں دستیاب پروسیسڈ فوڈ کھاتا ہے ‘ جو ان کیلئے زیادہ فائدے مند نہیں ہے ۔
ڈاکٹر سبھا راؤ کا اس صورتحال کے بارے میں کہنا ہے بازاروں میں صحت مند کھانوں سے زیادہ غیر صحت مند کھانے آسانی سے دستیاب ہیں جو بڑے ذائقے دار تو ہیں لیکن زیادہ صحت مند نہیں ۔ ان کے مطابق این آئی این کی کوشش ہے کہ پروسیسڈ فوڈ کے بارے میں صارف تک تمام معلومات صحیح انداز میں دستیاب رکھی جانی چاہئے اور اس کیلئے وہ کوشا ں بھی ہے ۔
ہندوستان میں ایک صحت مند غذائی روایت رہی ہے لیکن اب یہ تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور اس کی جگہ پروسیسڈ فوڈ لے رہے ہیں۔کھانے کی عادات میں یہ تبدیلیاںنوجوانوں سمیت آبادی میں مختلف غیر متعدی بیماریا( این سی ڈیز) پیدا ہورہی ہیں۔اس لئے ’مائی پلیٹ فار دا ڈے‘ جیسی پالیسی کا نفاذ اورکمیونٹی کی سطح بیداری وقت کی ضرورت ہے ۔