تو کیا اپنے گورے گورے بانکے چھورے‘عمرعبداللہ یہ سمجھ گئے تھے کہ … کہ یہ وزیر اعلیٰ ‘ جموںکشمیر کے وزیر اعلیٰ بن گئے… دس برسوں بعد بن گئے تو… تو اب کی موجیں ہی موجیں ہیں… نہیں صاحب ایسا نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے کہ اللہ میاں کی قسم ان کے سر پر سچ میں تاج ہے… کانٹوں کا تاج …اور …اور گگن گیر میں جو کچھ بھی ہوا … اس واقعہ … افسوس ناک واقعہ سے ان کی سمجھ میں یہ بات آنی چاہیے کہ… کہ ان کے سر پر ہی کانٹوں کا تاج نہیں ہے‘ بلکہ انہیں جس راستے پر چلنا ہے… جس راستے پر یہ چل پڑے ہیں‘وہ راستہ بھی کانٹوں سے بھرا ہے اور سو فیصد بھرا ہے ۔عمر صاحب جس منڈیٹ کو لے کر آئے ہیں… وہ منڈیٹ تو یقینا انہیں ایک اعتماد دے رہا ہو گا … اس منڈیٹ نے انہیں پر اعتماد بنایا ہو گا… لیکن… لیکن ساتھ ہی یہ جناب ایک بوجھ … توقعات کا ایک بوجھ بھی محسوس کررہے ہوں گے… اور اس لئے کررہے ہوں گے کیونکہ پانچ چھ برسوں کے بعد کشمیر کو ’اپنی‘ حکومت ملی ہے… جس کو کوئی ’اپنا‘ چلا رہا ہے … لیکن صاحب اگر گگن گیر کوئی شروعات ہے… اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو… لیکن… لیکن صاحب یہ کشمیر ہے‘ یہاں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے… اگر گگن گیر کوئی شروعات ہے تو… تو وزیر اعلیٰ صاحب کا ہر آنے والا دن اسی فکر میں گزرے گاکہ… کہ کہیں آج کسی اور جگہ گگن گیر دہرایا نہ جائے… اللہ میاں سے دعا ہے کہ ایسا نہ ہو… اگر ایسا ہوا… اگر وزیر اعلیٰ صبح شام اسی فکر میں رہیں تو… تو اُس عوامی منڈیٹ … بھاری عوامی منڈیت کا کیا ہوگا… ان توقعات کا کیا ہو گا… ان خوابوں کا کیا ہو گا جو کشمیریوں نے عمر کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد دیکھے یا دیکھنا شروع کئے ؟یقینا عمر عبداللہ پہلے جیسے طاقتور وزیر اعلیٰ نہیں رہے … اور بالکل بھی نہیں رہے… اور… اور یہ بات ہر گزرتے دن کے ساتھ عیاں بھی ہو رہی ہے…اور یہی ان کا امتحان ہے… یعنی جتنے بھی محدود اختیارات ان کے پاس ہیں… ان محدود اختیارات میں ہی انہیں ان توقعات… عوامی توقعات کو پورا کرنا ہو گا… انہیں پورا کرنے کے پر خطر اور پڑ خار راستے پر چلنا ہوگا…گوررے گورے بانکے چھورے اس راستے پر تب ہی چل پڑیں گے جب… جب گگن گیر جیسا کوئی اور واقعہ نہ رونما ہواور… اور اللہ میاں سے دعا ہے کہ… کہ یہ ایسا آخری واقعہ ہو۔ لیکن… ؟ ہے نا؟