ہفتہ, مئی 10, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

کشمیرکا معاشرہ تضادات کا مجموعہ

خرافات کا اختیار اور ترویج معاشرہ کو ڈبو رہا ہے

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-10-05
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

وادی کشمیر کا مسلم معاشرہ معاشرتی زندگی اور روزمرہ کے معمولات کے تعلق سے تضادات کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کی مثال غالباً دُنیا کے کسی بھی مہذب یا غیر مہذب معاشرہ سے نہیں ملتی۔ اس تضاد کے کئی پہلو اور بہت سارے چہرے ہیں ۔ جس طرح اور جس فکری انداز کے اعتبار سے کشمیرنشین سیاسی قبیلے مختلف خانوں میں تقسیم ہیں اوران مختلف خانوں سے وابستہ اپنے حامیوں کی فکری تربیت کی بجائے انہیں مفاد پرستی اور مادہ پرستی سے عبارت اور اخلاقیات سے گری سرگرمیوں میں ملوث ہونے اوراسی حوالہ سے اپنا کردار اداکرنے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اسی طرح معاشرے سے وابستہ لوگوں کا ایک مخصوص طبقہ جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہے، جو مغرب زدہ ہیں یا مغربی معاشروں اوران کی تہذیب سے بے حد متاثر ہیں اور اس تعلق سے خود کو روشن خیال اور اعتدال پسند کہنا پسند کرتے ہیں کشمیر میں معاشرتی سطح پر کچھ ایسی سرگرمیوں اور معمولات میں اپنا حصہ اداکرکے معاشرے کی تباہی میں بھر پور کردارادا کررہے ہیں۔
بے شک وہ یہ استدلال پیش کرسکتے ہیں کہ چونکہ وہ صاحب ثروت ہیں، آزاد خیال ہیں لہٰذا اپنی زندگیوں اور معاشرتی سطح پر اپنے روزمرہ معمولات کو اُسی کے مطابق آگے بڑھانے میں اپنی مرضی آپ کے مالک ہیں، کسی کے گھر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ہیں اور بقول مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے سرمایہ سے شراب پیتا ہوں کسی کاخون نہیں چوستا ہوں کے مصداق یہ لوگ اسی سے مشابہت ترانے گاکر اپنے بڑے پن کے تکبر میں غرق ہیں۔
ویسے بھی معاشرے سے وابستہ اوسط درجے کا فرد یا بحیثیت مجموعی لوگوں کو سرمایہ داروں کی لن ترانیوں پر معترض ہونے کا کوئی اختیار نہیں لیکن جو معاشرہ اپنی تاریخ کے حوالہ سے اپنی صحت، سلامتی اور بقاء کی جدوجہد میںسراپا مصروف ہو، جس کے ہاتھ سے روزگار چھین لینے کے راستے اختیار کئے جارہے ہوں، جس کی منفرد تشخص شناخت اور ثقافت خطرے میں پڑ چکی ہے، جن کے پیروں تلے سے اس کی زمین کھسکائی جارہی ہو، جس کی سیاسی ،لسانی ، مذہبی آزادی کی ضمانت ہر گذرتے روز کے ساتھ گہن زدہ ہورہی ہو، جس کو اُف تک کرنے کا حق حاصل نہ ہو اُس معاشرے کا نودولتی یا وراثت سے ملی دولتی طبقہ کی خرمستیاں باقی ماندہ معاشرہ کیلئے نہ صرف ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے سوہاں روح ہیں بلکہ مجموعی طور معاشرتی اقدار اور خاندانوں کے انفرادی اور اجتماعی قتل کے بھی مترادف ثابت ہوسکتی ہیں۔
جن کے پاس دولت کی صورت میں وسائل ہیں وہ ان کو اپنی من مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی آزادی بھی رکھتے ہیں اور حق بھی، لیکن معاشرے کے تئیں وہ ملی ذمہ داریوں سے آنکھ نہیں چراسکتے ہیں، اس سرمایہ میں ناداروں کا بھی حصہ ہے ، صرف اُس صورت میں کہ اگر وہ خود کو اسلام کے پیروکار سمجھتے ہیں، اگروہ اس فکر اور فہم کے حامل نہیں تو پھر دوسری بات ہے۔ لیکن معاشرتی ذمہ داریوں کے تعلق سے انہیں یہ آزادی یا حق حاصل نہیں کہ وہ خود نمائی کا راستہ اختیار کرکے دوسروں کیلئے درد سر بن جائیں، ان کے روزمرہ معاملات بشمول شادی بیاہ تقریبات اور دیگر امورات کے تعلق سے بدعات کو اختیار اورپھیلاتے جائیں۔
کشمیرمیں فی الوقت شادی بیاہ کا سیزن چل رہا ہے، حالیہ دنوں میں ایسی کئی ایک تقریبات کا مشاہدہ ہوا جو تمام تر معاشرتی اوراخلاقی اقدار اور شائستگی کی حدود سے بہت باہر تصور کی جاسکتی ہیں۔ ان کا مشاہدہ ہی تکلیف دہ اور روح فرسا رہا، ایسے ایسے خرافات کا مشاہدہ کہ شیطان اور یہود بھی شرمسار ، ناچ گانوں کی محفلوں کی آراستگی پر لاکھوں روپے کے مصارف اور بقول ایک گانے والے کے ایک سیزن غالباً چھ ماہ پر ہی مشتمل ہوتا ہے کی آمدن ایک کروڑ اور ڈیڑھ کروڑ روپے تک ہوتی ہے۔
مہمانوں کی خاطر تواضع کیلئے کچھ ایسی بدعات کو متعارف کیا گیا ہے کہ یہ تاثر فوری طور سے اُبھر کر سامنے آجاتا ہے کہ جیسے ان لوگوں میں امبانی کی روح سرائیت کر گئی ہے جو اُسی سرمایہ دار کے نقش قدم کی تقلید کرکے کشمیرکے مسلم معاشرے میں ان خرافات کو متعارف کرانے کی سمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ان خرافات کی تصویر کشی یہاں ممکن نہیں کیونکہ ان خرافات جو شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی جارہی ہیں خود شیطان بھی ان کا نام رکھنے سے فی الحال قاصر ہے۔
اس تعلق سے میرواعظ کشمیر مولانا محمدعمر فاروق نے حالیہ ایام میں جب انہیں خانہ نظر بندی سے رہائی ملی تھی نکاح خوانی کی کچھ محفلوں کی قیادت کی جس دوران میر واعظ نے سادہ نکاح کی اہمیت ،حرمت اور تقدس کے حوالہ سے گھروں،خاندانوں اور معاشرے پر مرتب ہونے والے مثبت اور سکون قلب سے عبارت اثرات پر روشنی ڈالی لیکن ساتھ ہی وہ شادی بیاہ کی تقریبات کے حوالہ سے متعارف کرائی جارہی خرافات کے حوالہ سے بھی برہم تھے اور بار بار لوگوں سے اصرار کرتے رہے کہ وہ نکاح کی مقدس تقریب اور اس حوالہ سے بندھنے جارہے رشتہ کو پرسکون اور آسان بنائے رکھیں۔میرو اعظ اس تکلیف دہ امر کو بھی واضح کرتے رہے کہ ہزاروں لڑکیاں رشتہ کی منتظر ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ میرواعظ کو پابند سلاسل رکھ کر اس مخصوص تحریک کا پہیہ جام کردیاگیا۔
صرف میر واعظ ہی نہیں معاشرے کے سنجیدہ ، حساس اور ذمہ دار طبقے کشمیرکی اس اُبھرتی اور تضادات سے بھری صورتحال سے فکر مند اور پریشان ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس نوعیت کی خرافات صرف وادی کشمیر تک محدود نہیں بلکہ جموں کامسلم معاشرہ بھی بحیثیت مجموعی اسی راہ پر گامزن ہوچکا ہے ۔ جموں کے مسلم معاشرے کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ چونکہ ان کی ہمسائیگی میں غیر مسلم کثرت سے رہائش پذیر ہیں اور یہ ممکن ہے کہ دیکھا دیکھی میں وہ اس راہ پر گامزن ہوتے جارہے ہیں ۔ لیکن کشمیر کے مسلم گھرانہ کی ہمسائیگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ ان کے سروں پرکوئی تلوار لٹکی ہے اور نہ ہی کوئی طاقتور انہیں دھمکا رہا ہے کہ وہ ان خرافات کو گلے کا ہار بنا کر دوسروں کے لیے بھی تقلید کی راہیں استوار کرتا پھریں۔
کشمیرکے حوالہ سے یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ گھرانے غربت کی زندگیاں بسرکررہے ہیںاور ان گھرانوں کی بیٹیاں سن بلوغت کی دہلیز کو کب کی عبور کرکے خالی ہاتھوں مہندی کی منتظر ہیں۔ کشمیری سماج کے اس تکلیف دہ منظرنامہ میں سدھار لانے کی ذمہ داری جن لوگوں پر عائد ہوتی ہے وہ بحیثیت مجموعی اپنے گھروں میں پرسکون زندگی گزاررہے ہیں۔ جوعلماء اور مفتی حضرات معاشرتی بیداری میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں وہ منبروں پر بیٹھ کر اسلام سے وابستہ صحابہ کرامؓ، فقہ اور اسوہ حسنہ کے مختلف پہلوئوں کو زیر بحث لاکر مسلکی نفاق اور ٹکرائو میںشدت کا کردار اداکررہے ہیں، انہیں بریلوی، دیوبندی، شیعہ، سنی، اہلحدیث ، حنفی ، مالکی اور شافعی مسلکوں کے تعلق سے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ یہ بھی ان تضادات کا ایک حصہ ہے جو کشمیر کی معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
مادہ پرستی ،ابن الوقتی ، مفادات کے حصول اور تحفظ کیلئے دوسروں کے مفادات کا قتل یہاں تک کہ کشمیرکے وسیع ترمفادات کا سودا طے کرنا مخصوص ذہنیت رکھنے والے عناصر معیوب اور غدارانہ عمل نہیں سمجھتے بلکہ المیہ کی حد تک وہ اپنے اس عمل پر فخر سے سینہ تان رہے ہیں۔ کشمیر نشین سیاسی اور نیم مذہبی قیادت کے بعض اصحاب اس دوڑ سے باہر نہیں!

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

لوگوںکا رول ختم…!

Next Post

بابراعظم کی کپتانی سے دستبرداری! فیصلے کی حمایت کرتا ہوں”

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
بابر اعظم کی سنچری، ایک اور سنگ میل عبور

بابراعظم کی کپتانی سے دستبرداری! فیصلے کی حمایت کرتا ہوں"

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.