’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات…لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزاپائی…‘‘ یہ اور اس سے مماثلت دوسرے کئی محاورے، آپ انہیں جملے بھی کہہ سکتے ہیں ، ضرب المثل بھی اور علامتوں کے طور بھی شمار کرسکتے ہیں ، یہ کن کی زبانوں اور تخیل کی مرہون منت ہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں البتہ عالمی سطح پر قوموں کی سوچ، مخصوص فکر، فیصلہ سازی، روزمرہ کے معمولات سے عہد ہ برآںہونے کی سمت میں اختیار طور طریقے یہ ثابت کرتے رہے ہیں کہ جس نے بھی یہ تاریخی جملے ادا کئے وقت وقت پر ان کی سچائی پر مہر تصدیق ہی ثبت ہوتی رہی۔
کشمیرکے ماضی کے سیاسی منظرنامہ کے حوالہ سے، میڈیا میں منظرکشی یا محض بطور ریفرنس کے حوالہ جات کے ان کا استعمال بہتات میں کیا جاتارہا ہے ۔ کئی ایک سیاسی ، نیم سیاسی اور مذہبی جلسوں ، جلوسوں اور اجتماعات سے خطاب کے دوران مقررین اپنے اپنے مخصوص نظریات کے تناظر میں ان جملوں کا استعمال کرتے رہے، اس تعلق سے جب جموںوکشمیر کے ہند یونین کے ساتھ الحاق کا تذکرہ ہوتا تو الحاق کے فیصلے کو کچھ مخصوص ذہنیت اور فکر کے حامل لوگ لمحاتی (جذباتی) فیصلہ قرار دے کر اپنے سامعین پر یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ اس لمحاتی فیصلے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم سزا بھگت رہے ہیں اور معلوم نہیں یہ سزا کتنی صدیوں تک کشمیر کو بھگتنی ہوگی۔
اسی تناظرمیں اس فکر کے لوگ یہ بھی کہتے بلکہ خاموش انتباہ کے طور لوگوں پر واضح کرنے کی کوشش کرتے کہ اس پر خاموشی جرم ضعیفی کے متراد ف ہے جس کی سز ا مفاجات کے سوا اور کچھ نہیں ۔آج منظرنامہ کسی حد تک تبدیل ہوا، سیاست اور سیاست کے تعلق سے فکر بھی بدل رہی ہے اور معمولات زندگی بھی ، لیکن اب لمحوں کے فیصلوں کی ریفرنس انہی لوگوں کے نریٹو سے غائب ہے ، اس کے برعکس وہ ایک نئے ماحول میں اپنی زندگیوں، اپنی اختیار کردہ سیاسی موقف اور سیاسی نظریہ میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنے لئے ایک نیا سفر شروع کرنا چاہتے ہیں، اس نئے سفر کی شروعات وہ الیکشن میدان میں اُتر کرکرتے نظرآرہے ہیں۔ ان کے اس نئے سفر کا خیر مقدم لیکن جس سفر کی قیادت، سرپرستی، معاونت وہ ۳۵؍ سال تک کرتے رہے اس کی ذمہ داری سے وہ دامن کترارہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں وہ اس کے ذمہ دار نہیں، نئے سفر کا آغاز تو کررہے ہیں لیکن اپنے ماضی قریب کے رول اور کردار پر انہیں نہ شرمندگی ہے،نہ افسوس ہے اور نہ ندامت، بلکہ ڈھٹائی اور بے شرمی کا تاج سرپر سجا کر وہ اُس لہو رنگ دور کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔
۱۹۶۴ء میں کشمیر کی سیاست میں قدم رکھتے ہوئے اعلان بھی کیا اور عہد بھی کہ ’’ ہم الحاق کو حتمی تسلیم کرتے ہیں ، ۹۷۲ا ء میں اس کا اعادہ کیا، ۱۹۸۸ء میں الحاق کو یہ کہکر چیلنج کیا کہ کشمیر برصغیر ہند پاک کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے، پورے ۳۵؍ سال تک اس عہد اور موقف پر قائم رہے اور اب ۲۰۲۴ء میںپھر یوٹرن لیتے ہوئے الحاق کو حتمی اور ناقابل تنسیخ قراردینے کا حلف نامہ داخل کرچکے ہیں۔ کچھ سیاسی ابن الوقت انہیں سیاسی مظلوم قرار دے کر لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ان کی مظلومیت کا احساس کرتے ہوئے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے، لیکن اس اظہار یکجہتی کی اپیل اور مشورہ اپنی جگہ البتہ وہ گھر ، وہ خاندان اور وہ بستیاں جو اپنے کفالوں کی سرپرستی سے محروم ہوئے، جن کے گلے میں رسیاں ڈال ڈال کر موت کی آغوش میں بغیر کسی گناہ جرم اور عذر کے سلایاجاتا رہا کیا وہ بھی اپنے قلب وروح پر لگے اِن زخموں کو نظرانداز کرکے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر آکر زندہ باد اور پائندہ باد کے نعرے بلند کریں اور اپنے سامنے نئے روپ میں جلوہ گروں کے گلے میں مالائیں پہنا کر اپنے زخموں پر مرہم رکھیں؟
اس تناظرمیں کیایہ سوال واجبی نہیں کہ اگر شیخ محمدعبداللہ نے مہاراجہ کے ساتھ مل کر الحاق کیا ، وہ اگر لمحاتی اور جذباتی فیصلہ تھا اور صدیوں کی سزا پر محیط ہے تو ۱۹۹۰ء کی دہائی میںمسلح تحریک کی اخلاقی حمایت، عملی شرکت، معاونتی کردار، تحریک کی قیادت اپنے کیڈر سے وابستہ ارکان کے ہاتھ سونپ دینے کا فیصلہ لمحاتی اور جذباتی تھایا اب الیکشن میدان میں لنگر لنگوٹے کس کر اُترنے کافیصلہ بدلے حالات میں لمحاتی یا جذباتی ہے یا محض وقت کے تقاضوں اور کچھ مخصوص اور پوشیدہ مصلحتوں کے پیش نظر علامتی’یوٹرن‘ کی حیثیت کا حامل ؟
جو کچھ بھی ہے، چاہیے پردوں میں ہے یا عیاں ہے، قطع نظر اُس کے بیرون جموںوکشمیر کچھ مبصرین ، سیاسی پنڈت اور میڈیا سے وابستہ کچھ سرکردہ شخصیات اس بات پر متفق اور ایک پیج پر کھڑے نظرآرہے ہیں کہ یہ تبدیلی سیاسی ،ا نتظامی اور اقتدار کی مصلحتوں کی مطیع ہے اور الیکشن میدان میں ان کی موجودگی یا انہیں جھونکنے کے پیچھے کشمیر کاووٹ تقسیم درتقسیم کرنے کی منظم حکمت عملی سے عبارت ہے اس راستے کو اختیار کرتے ہوئے اب تک کئے جارہے کئی ایک دعویٰ زمین بوس دکھائی دے رہے ہیں۔ پارٹی کو ٹیرر فنڈنگ کی پاداش میں ممنوعہ قرار دینا، املاک اور اثاثوں کی ضبطی اوران سے وابستہ بالا زمین اور ایکوسسٹم کے خلاف تادیبی کارروائیوں کے تناظرمیںاب جن سوالات کو جنم دینے کا موجب بن رہے ہیں وہ ایک نیا پنڈورابکس کے مترادف ہے۔
الیکشن میدان میں جیت کس کی ہوتی ہے اور شکست کس کا مقدر بن جائے گا وہ اہم نہیں بلکہ اہم سوال جو کشمیرکے اوسط ووٹر کے قلب میںکلبلاتے رہنا چاہئے یہ ہے کہ ووٹ تقسیم ہونے اور اقتدار کشمیرسے باہر چلاجائے تو کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا پھر اُس صورت میں بھی کچھ عرصہ بعد کشمیرکے خودساختہ کرم فرما یہی راگ الاپتے سنے جائیں گے کہ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی۔ اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی کیا یہ مناسب، وقت کا تقاضہ اور حکیمانہ طرزعمل کا تقاضہ نہیں کہ اس تقسیم کو روکا جائے اور اپنے لئے روڈ میپ نئے سرے سے ترتیب دینے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔
لیکن یہ خیالات، یہ جذبات، یہ اشارے مونگیری لال کے سنہرے سپنوںسے کچھ بھی مختلف نہیں، کیونکہ پارٹیاں اور دوسرے لوگ، جواب مخصوص کرداروں کے حامل بن چکے ہیں، اپنے مخصوص خولوں سے آزاد ہوکر باہر نہیں آئینگے، بلکہ وہ ہوس اقتدار کی چاہت میں اب اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ اب اپنے اردگرد کچھ دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔
الیکشن میدان کا جو منظرنامہ فی الوقت نظرآرہا ہے وہ گھٹن زدہ بھی ہے، ہوس اور مادہ پرستی سے بھی عبارت ہے،کردار کشی کی بُنیاد پر آراستہ ہے اور سب سے بڑھ کر اس کی لگام خود ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کسی اور دُنیا سے ان کیلئے تاریں ہلائی جارہی ہیں، بقول ملک کے ایک بزرگ اور سینئر ترین صحافی پریم شنکر جہاکے الیکشن میدان میں موجود ایک سیاست کار کو واضح پیغام دیاگیا کہ وہ ڈیفیکشن یا جیل میں سے کوئی ایک راستہ اپنے لئے چن لے، اس سیاستدان نے ڈیفیکشن کا راستہ اپنے لئے منتخب کرلیا، اسی سے ملتا جلتا راستہ کئی دوسروں نے بھی چن لیا اور میدان میں اُتر کراب کشمیر کی سیاسی، ثقافتی، انتظامی اور معاشی بربادی کا ایک نیا باب رقم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔