پہلے مرحلہ کی ووٹنگ میں محض چند گھنٹے رہ گئے ہیں لیکن الیکشن کے حوالہ سے منظرنامہ ہر گزرتے لمحے نہ صرف تبدیل ہوتا جارہا ہے بلکہ سیاسی پارٹیوں اور ان سے وابستہ لیڈروں کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے میدان میں اُتار ے گئے اُمیدواروں کی جانب سے جو رویہ، زبان اور لہجہ اختیار کیاجارہا ہے وہ نہ شائستہ ہے، نہ مہذبانہ ہے بلکہ ان کے انداز بیان ، طرزعمل اور باڈی لنگویج اگر کسی جانب اشارہ کررہی ہے تو یہی کہ جیسے انہوںنے ووٹنگ سے قبل ہی فتح حاصل کرلی ہے۔ حکومت کی تشکیل کے جو دعویٰ مسلسل کئے جارہے ہیں وہ بھی ان کی اسی خوش فہمی کا چھوٹا سا تسلسل ہے جبکہ اب کردارکشی ، طعنہ زنی اور ایک دوسرے کو کسی اور کا ایجنٹ یا پراکسی کے طور پیش کرنے کا زہریلا جنون سرچڑھ کر بول رہا ہے۔
سیاسی پارٹیوں اور ان سے وابستہ لیڈر شپ کے اس لہجہ اپروچ اور بیانات نے الیکشن فضا کو نہ صرف انتہائی حد تک مکدر بنارکھا ہے بلکہ یہ لوگ اپنے من گھڑت اور اختراعی دعوئوں اور بیان بازی سے ووٹروں کو ذہنی انتشار میں مبتلا کرتے جارہے ہیں۔ اس انتشاری کیفیت میں ۸؍اکتوبر کو جو نتائج سامنے آئینگے اُس میں اس انتشار کو واضح طور سے محسوس کیاجائے گا۔ ویسے یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ اس انتشار کو اور شدت اور پھیلائو عطاکرنے کیلئے خود بھی لوگ ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ ایک تو خود جواب دہی اور سیاستدانوں کا محاسبہ میںیقین نہیں رکھتے جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ووٹ اشوز کو ملحوظ خاطر رکھ کر نہیں دیتے بلکہ ’یہ میرا ہمسایہ ہے ‘رشتہ دار ہے‘ دوست ہے‘احباب ہے اور چند کچھ دیگر مصلحتوں سے بھی کام لیاجارہاہے۔
جموںوکشمیر الیکشن کی تاریخ میں رواں الیکشن عمل غالباً اپنی نوعیت کا منفرد اور واحد الیکشن تصور کیاجاسکتاہے جس میں کم وبیش سبھی پارٹیوں نے جھوٹ، کذب بیانی، کردارکشی ،طعنہ زنی اور فریب کاری کاسہارا لے کر خود کو دودھ کا دُھلا کے طور پیش کرنے کی کوشش کی ہو، علاقہ پرستی ، مذہبی جنون اور سب سے بڑھ کر کچھ مخصوص فرقوں اور طبقوں کو ان کا نام لئے بغیر دھمکیوں سے عبارت بیانات بھی اب تک سامنے آکر کئی چہروں کو ان کے اصل باطن کو بے نقاب کرچکے ہیں۔
الیکشن عمل کو کشمیرکے حوالہ سے باالخصوص جمہوریت کا جشن قرارتو دیا جارہاہے اور اسی چہرے کے ساتھ پیش بھی کیا جارہا ہے لیکن الیکشن منظرنامہ کے حوالہ سے جو منظرنامہ اب تک اُبھر کر سامنے آیا ہے اُس میں جوڑ توڑ ، ہوس اقتدار، نظریاتی بالادستی اور مختلف نوعیت کی جنونیت کی جھلکیاں صاف طورسے نظر بھی آرہی ہیں اور محسوس بھی کی جارہی ہیں۔ چالیس فیصد کے قریب آزاد اُمیدواروں کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمتوں سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ حاصل کرکے الیکشن میدان کی اور پیش قدمی ہر گزاور کسی بھی اعتبار سے جمہوریت کا جشن تصور نہیں کیاجاسکتا ہے۔
ریاست کی ۳۵؍ سالہ تباہی وبربادی، امن وسکون کی محرومی، عدم استحکام، خون خرابہ، زور زبردستی اور دہشت گردی کے حوالہ سے کئی ایک چہروں کا دبدبہ جموںوکشمیر کی تاریخ کا ان مٹ حصہ تو ہے لیکن جن کو اس کا سرکاری سطح پر براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا، ان کے وابستگان کو اس حوالہ سے ان کاایکوسسٹم قرار دے کر جائیدادیں تک سربہ مہر کی جاتی رہی آج اچانک نظروں میں قوم پرست قرار دئے جارہے ہیں بلکہ ان کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ جشن جمہوریت میں شامل ہونے پران کا والہانہ خیر مقدم ہے جبکہ کشمیرنشین کچھ ایک سیاستدان اور ان کی پارٹیاں انہیں حالات کا Victimکے طور پیش کرکے عوام کو یہ یقین دلانے یا باور کرانے کی سعی لاحاصل کررہی ہیں کہ یہ مظلوم ہیں، عتاب کا نشانہ بنائے جاتے رہے ہیں لہٰذا ہمدردی کے مستحق ہیں۔ اس جھوٹ کو بار بار دہرایا جارہا ہے۔ مقصد واضح ہے کہ ہوس اقتدار اور حصول اقتدار کی اس اندھی دوڑ میں ان کا تعاون اور حمایت اگرحاصل ہوجائے تو وہ حمایت اور تعاون بھی جشن جمہوریت ہی کا ایک اور تسلسل یا کڑی ہوگی‘‘۔
ایک سیاسی پارٹی خطہ چناب کی ترقی اور اس مخصوص خطے کو ماڈل خطے کے طور نقشہ پر لانے کے دعویٰ کرکے اس مشن پر گامزن ہے تو دوسری پارٹی جموں خطے کو جنون اور جذبات کے نام پر فتح کرکے جموں وکشمیرکی آبادی اور خطوں کو مذہبی، علاقائی اور جذباتی خطوط پر تقسیم کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ایک اور طبقے کا دعویٰ ہے کہ اقتدار اور الیکشن کے نام پر کچھ برس قبل جنوبی کشمیر کو مخصوص سیاسی فکر کا نشانہ بنایا گیا اور اب اسی کی ایک اور کڑی کے طور شمالی کشمیر کو مخصوص سیاسی فکر کا نشانہ اور مرکز بنایاجارہاہے، بقول شمال کشمیرکے ایک حلقے کے اُمیدوار کے دعویٰ کے مطابق پارلیمانی الیکشن میں اس تعلق سے رہرسل کی گئی جو کامیاب رہی اور اب اس کامیابی کو اور زیادہ مستحکم شکل وصورت میںممکن بنانے کی سمت میں دائو کھیلے جارہے ہیں۔
اس تعلق سے ٹیرر فنڈنگ کے الزامات میںملوث جیل کی سزا کاٹ رہے انجینئر رشید کا نام بھی گھسیٹا جارہا ہے اور مختلف حلقے مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ پراکسی ہے، جس کی خود انجینئر رشید تردید کرتے جارہے ہیں۔ پیپلز کانفرنس کا سرابرہ سجاد غنی لون کا اس حوالہ سے کل تک موقف یہ رہا کہ یہاں روایتی اور خاندانی پارٹیاں اپنے مخالفین کو ایسے ہی لیبل چسپاں کرتی رہی ہیں اور انجینئر رشید کو مظلوم ہونے کے باوجود پراکسی قراردیاجارہا ہے۔ لیکن محض اب سے چند گھنٹے قبل ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سجاد غنی لون نے ’یوٹرن‘لیتے ہوئے انجینئر رشید کو دہلی کا پراکسی ہی قرار نہیں دیابلکہ دعویٰ بھی کیا کہ انجینئر رشید گزشتہ دو ماہ سے جیل میں تھا ہی نہیںبلکہ وہ جیل سے باہر تھا۔ انجینئر رشید غالباً ۱۱؍ستمبر کو عدالتی ضمانت پر رہا ہوئے لیکن سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہورہی ہے جس میں۱۴؍ اگست کی تاریخ کے حوالہ سے انجینئر رشید کو لاجپت نگر کے کسی ریستورنٹ میںکھانا کھاتے دیکھاجاسکتا ہے۔ اگر چہ اس کلپ کو کچھ لوگ فیک قرار دے رہے ہیں ۔
ہم سیاست میں نہیں ہیں، نہ ہی سیاسی لیڈروں کی صحبت میں ہیں اور نہ کسی سیاسی پارٹی کے تنخواہ دار، لیکن سیاست کے حوالہ سے کشمیرکے نام پر جو کچھ گل کھلائے جارہے ہیں اور پھر یہ دعویٰ کئے جارہے ہیں کہ ہم کشمیری عوام کے حقوق اور کشمیر کے منفرد تشخص کے تحفظ کیلئے میدان میں جہاد کررہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ نہ صرف دھوکہ اور فراڈ سے عبارت ہیں بلکہ کشمیریوں کے احساسات اور جذبات کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ ہورہا ہے ۔ کشمیر کا ہر طرح سے استحصال پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی استحصال کے طور طریقے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ نوجوان نسل کو گمراہ کیاجارہاہے، انہیں کشمیر کی تاریخ اور تاریخی واقعات کے تعلق سے بھی گمراہ کیاجارہاہے اور اس تعلق سے بھی جھوٹ کا سہارا لیاجارہاہے۔
دراصل اس جھوٹ کا بار بار اور مسلسل سہارا لینے کے پیچھے یہ مقصدکارفرما ہے کہ کشمیرکی نوجوان نسل کو جہاں اپنے ماضی کے مذہبی روحانی اور سیاسی پیشوائوں سے بدظن کردیاجائے وہیں ان کے ذہنوں پر یلغار کرکے انہیں اس بات کا قائل کیاجائے کہ اب تک انہیں سبز باغ دکھائے جاتے رہے ہیں لیکن اب ہم جو کہہ رہے ہیں اور کررہے ہیں وہی زمینی سچ ہے۔ کشمیر کی نوجوان نسل اپنے لئے روشن حال اور خوشگوار مستقبل کی فکر اور تلاش میں سرگرداں ہے البتہ انہیں اس فکر اور تلاش سے بھی دور کرنے کے ہتھکنڈے بروئے کار لائے جارہے ہیں جن ہتھکنڈوں کو بروئے کارلانے میںکچھ مخصوس فکر کی سیاسی پارٹیاں کلیدی کردارادا کررہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت یہ سب کچھ الیکشن عمل کی آڑ میں کیاجارہاہے ورنہ اب تک یہ سارا کھیل درپردہ رہ کرہی کھیلی اور کھلائی جاتی رہی ہے۔