لندن //
سائمن ٹوفل نے پاک بھارت مقابلوں میں امپائرنگ کو مشکل تجربہ قرار دے دیا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو انٹرویو میں سائمن ٹوفل نے کہا کہ پاک بھارت مقابلوں میں امپائرنگ مشکل تجربہ ہوتی ہے،روایتی حریفوں کے مقابلے پر کروڑوں نگاہیں مرکوز اور شائقین کی بڑی توقعات وابستہ ہوتی ہیں، بڑی تعداد میں ماہرین بھی تجزیے کیلیے موجود ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2004کی پاک بھارت سیریز میں ماحول بڑا مختلف تھا، صدر مملکت کے برابر سیکیورٹی تھی، مشین گنز کے ساتھ سیکیورٹی اہلکار ہم وقت موجود رہتے، باہر نکلنے کا موقع نہیں تھا، ہم نے ماحول کا دباؤ لیے بغیر ہر گیند پر توجہ دیتے ہوئے اپنی ذمہ داری بہتر انداز میں سرانجام دینے کی کوشش کی۔
009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے وقت ہونے والے تلخ تجربہ کے سوال پر آسٹریلوی امپائر نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد دو سال قبل پی ایس ایل کیلیے پاکستان آمد ہوئی، کراچی میں اپنے قیام سے لطف اندوز ہوا۔ سائمن ٹوفل نے کہا کہ علیم ڈار نے ریکارڈ میچز سپروائز کیے ہیں، احسن رضا کو بھی کچھ عرصے سے جانتا ہوں، دونوں بہترین امپائر ہیں تاہم میری تشویش یہ ہے کہ مستقبل کیلیے پاکستانی امپائرز کہاں سے آئیں گے۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آن لائن ایکریڈیٹیشن کورس تیار کرنے کا مقصد امپائرز کومستقبل کے چیلنجز کیلیے تیار کرنا ہے، اس کا پاس یا فیل ہونے سے تعلق نہیں بلکہ مہارت کو بہتر بنانا ہے، آن لائن ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے گھر پر بیٹھ کر ہی یہ کورس مکمل کرسکتے ہیں، اس کے 3مراحل تعارفی، لیول ون اور لیول ٹو ہیں، موجودہ امپائرز کو تعارفی مرحلے کی ضرورت نہیں، امپائرز میچ کے انعقاد کیلیے تیاری، کسی متنازع صورتحال میں فیصلے اور تکنیک کے ساتھ کرکٹ میچ سپروائز کرانے کی مہارت حاصل کرسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کرکٹ کے جوش و خروش کی کمی تو محسوس کرتا ہوں مگر اب فیملی اور سفر کیلیے وقت مل رہا ہے، آن لائن کورس کی صورت میں اب نئی نسل کی مدد کرنے کا وقت میسر ہے۔