عجیب مخمصہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ممنوعہ جماعت اسلامی کی الیکشن پراسیس میں واپسی کا کشمیر نشین ہر سیاسی جماعت نے نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ حکومت سے مطالبہ بھی کیا گیا کہ جماعت پر عائد پابندی کو ہٹایا جائے تاکہ جماعت کے اُمیدوار اسی حیثیت سے الیکشن لڑ سکیں۔ اس تعلق سے مسلسل کہا جاتا رہا کہ الیکشن میںشرکت ہر شہری کا جمہوری حق ہے۔
لیکن اچانک اب اس حوالہ سے کچھ تبدیلیاں محسوس کی جارہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں خود جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کے بعض دعویداروں کے بیانات کا نتیجہ ہیں کیونکہ ان بیانات میں تضادات بھی ہیں اور تاریخی اور زمینی حقائق کے تعلق سے غلط اور گمراہ کن دعویٰ بھی سامنے آرہے ہیں۔
ممنوعہ جماعت اسلامی سے وابستہ ایک لیڈر مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقاتوں میںمسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ان کی جماعت کشمیرمیںخون خرابہ کی ذمہ دار نہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے خون نہیں بہایا۔ اس لیڈر سے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ کے بعض حالیہ بیانات کی روشنی میں سوال کئے گئے جن کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم کسی (پی ڈی پی) کی عنایت نہیں چاہتے بلکہ ہم جواب میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن نہیں کہیں گے۔ رائے شماری کا نعرہ ہم نے نہیںکسی(نیشنل کانفرنس) نے بلندکیا۔ ہم پر بی جے پی کے ساتھ شراکت کا الزام غلط ہے جبکہ ۱۹۶۴ء میں بھی ہم (جماعت اسلامی) پر کانگریس کے ساتھ شراکت کا الزام لگایا گیا تھا۔ ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو قانون کی رئو سے غلط تھا ، جو کچھ کیا آئین کے تحت کیا‘‘۔
دعوئوں اور بیانات کا یہ ایک پہلو ہے ۔ابھی چند گھنٹے پہلے اسی لیڈر کا ایک اور بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’’ان کی جماعت کا فی مدت تک الیکشن میدان سے اس لئے دور رہی کیونکہ الیکٹورل پراسیس کے تعلق سے (فراڈ ) کیا جاتا رہا ہے۔ میںبیانات اور انٹرویوز میںبار بار کہتا رہا کہ ہم اُس وقت تک الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے جب تک نہ ہمیں یہ یقین دلایا جائے گا کہ الیکشن میں کوئی دھاندلی نہیں ہوگی۔ اب جبکہ پارلیمانی الیکشن کے تعلق سے کسی انتخابی دھاندلی نہ کرنے کا یقین دلایاگیا جبکہ اس الیکشن کے دوران اس کی شفافیت بھی ثابت ہوئی ہم نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ‘‘۔
قطع نظر اس کے کہ کل تک اس جماعت سے وابستہ بعض اُمیدواروں کی الیکشن میدان میں اُترنے کا خیر مقدم کیا جاتا رہا اور اب انہی کے تعلق سے سوالات کی بھرمار بھی سامنے آرہی ہے جبکہ پی ڈی پی صدر مفتی محبوبہ اب اس دعویٰ کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ’ ’اصلی جماعت کی لیڈر شپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، اُن کے سکول مقفل ہیں، میو ہ باغات اور گھروں کو سربہ مہر کیاگیا ہے اس کے باوجود کچھ لوگ جماعت کے ممبران کی دعویدار ی کے ساتھ الیکشن میدان میں اُترے ہیں، میں اس دوغلے پن کو سمجھنے سے قاضر ہوں ‘‘۔ پی ڈی پی صدر کا کہنا ہے کہ یہ ممبران بی جے پی کی پراکسی ہیں نہ کہ جماعت اسلامی کے مستند نمائندے۔
یہ کچھ لوگ بھی پراکسی ہیں کہ نہیں فی الحال اس سوال کو حاشیہ پر رکھنے کی گنجائش ہے لیکن جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کے دعویٰ کے ساتھ جو شخصیت میدان میں ہیں ان کا پہلا بیان یہی تھا کہ ان کا دہلی کے ساتھ رابطہ ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جماعت پر سے پابندی ہٹائی جائے۔ اس دعویٰ کا آج تک دہلی یا سرینگر ایڈمنسٹریشن کی جانب سے نہ تصدیق سامنے آئی اور نہ ہی تردید۔ تازہ ترین بیان کہ الیکشن میں فراڈ کے عنصر کو ختم کرنے کی شرط پر الیکشن میدان میں اُمیدوار اُتارنے پر ہم نے اپنی آمادگی ظاہر کی اور جب یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ الیکشن میںکوئی فراڈ نہیں ہوگا تو ہم نے اُمیدوار اُتارے، لیکن یہ واضح نہیں کیا یہ فراڈ نہ کرنے کی یقین دہانی کس نے دی؟ کیا جموںوکشمیر کی ایل جی ایڈمنسٹریشن نے دی، دہلی سرکار نے دی یا خود چنائو کمیشن نے دی، کیا یہ سمجھا جائے کہ جماعت کے اس لیڈر کا یہ دعویٰ یا تو کسی پوشیدہ سمجھوتہ کا حصہ ہے یا محض ان کی طرف سے دیئے جارہے گمراہ کن اور غلط بیانات کا ہی ایک اور تسلسل ہے۔
جماعت اسلامی اور اس کی لیڈر شپ کا نظریہ، موقف اور عقیدہ یہ ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات، قرآن، سنت، احادیث ، اسلامی فقہ کی روشنی میں اپنی سرگرمیوں میںیقین رکھتی ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ جماعت کا یہ دعویٰ اس کے اپنے طرزعمل، انداز فکر، اپروچ، سیاسی وغیرسیاسی معاملات کے حوالہ سے پیش آمدہ واقعات کے تناظرمیں سراسر غلط اور گمراہ کن ہے۔ یہ کہنا کہ ہم (جماعت) خون خرابہ کی ذمہ دارنہیں، اگرواقعی یہ دعویٰ سچائی پر مبنی ہے تو یہی لیڈر شپ عوام کے سامنے اس سچ کو پیش کرے کہ پھر جماعت کے نام پرعلیحدگی اور عسکری تحریک کون چلارہاتھا، کون ذمہ دار تھا۔ البتہ کیا یہ تاریخی سچ نہیں کہ عسکری تحریک کے آغاز ہی میں اُس وقت کی جماعت سے وابستہ صف اول کی قیادت کے ایک حصے نے مخالفت کی لیکن جماعت کے اندر سخت گیر موقف کی حامی لیڈر شپ نے مخالفت پر کمربستہ لیڈروں کو الگ تھلگ کردیا۔
لوگوں کی اس حوالہ سے یاداشت اتنی کمزور نہیںجتنی کہ جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کے موجودہ دعویدار کسی خودفریبی میںمبتلا ہوکر فرض کررہے ہیں، شیخ عبداللہ کی قیادت میں مرزا محمدافضل بیگ کے تعاون کے ساتھ محازرائے شمار کی بُنیاد ڈالی گئی اور ۲۳؍ سال تک رائے شماری کی تحریک چلائی جاتی رہی، لیکن اس تحریک سے نہ کبھی شیخ مرحوم اور نہ مرزا مرحوم نے انکار کرکے منہ موڑا بلکہ اعتراف کرتے ہوئے یہ اعتراف بھی کیا کہ ان کی یہ ۲۳؍ سالہ تحریک ان کی صحرانوردی (آوارہ گردی) کے علاوہ کچھ نہ تھی۔ جماعت اسلامی نے علیحدگی اور عسکری تحریک چلائی، معاونت کی اور دوسری جماعتوںکے برعکس کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر کردار اداکیا، اس کااعتراف کیوں نہیں؟ شرمندگی کس بات کی؟ اگر جماعت اسلامی سارے کارناموں اور سرگرمیوں میں سراپا ملوث نہیںتھی تو پھر حکومت نے پابندی کیوں لگادی، کیوں ٹریبونل نے حکومتی پابندی کے فیصلے پر اپنی مہر تصدیق ثبت کی!
سرزمین کشمیر اور اس کے اہل کا یہ تاریخی المیہ رہا ہے کہ ہر دورمیں کچھ ایسے عنصر بھی جلوہ گر ہوتے رہے جو کشمیر اور اس کے عوام کے مقدر کو فروخت کرتے رہے۔ انگریزوں اور ڈوگرہ حکمرانوں کے درمیان ۷۵؍ لاکھ نانک شاہی کے عوض کشمیر کی فروخت کو علامہ محمداقبال نے دل برداشتہ ہوکر کہاتھا کہ ’’قومے فروختندچہ ارزاں فروختند‘‘ ۔مغل شہنشاہ اکبر نے بھی کشمیرکے بادشاہ یوسف شاہ چک کے ہاتھوں پے درپے کئی شکستوں کے بعدا سی راستے کو اختیارکیا، اپنے مقامی ذرخرید گماشتوں کو میدان میں اُتارا، دھوکہ دے کر یوسف شاہ چک کو بات چیت کیلئے بلایا وہاں پہنچ کر اسے گرفتار کرلیا، پھرآج کے بہارمیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالدیا جہاں اس کی موت واقع ہوئی۔ کشمیرکی تاریخ بیعنامہ امرتسر ایسے سودا بازیوں سے بھری ہے۔ آج کی تاریخ میں بھی کشمیر کے سودے طے کرنے والوں کی کوئی کمی نہیںہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ اس نوعیت کے سمجھوتے اور سودے کرنیو الے نہ صاف چھپتے ہیں اور نہ صاف سامنے آتے ہیں، اپنے زمانہ کے ایک قد آور کشمیری پنڈت لیڈرکشپ بندھوکے قول کے مطابق ایسے لوگ دراصل ٹٹی کی آڑ میں شکار کرنے کے خوگر ہیں۔
۔