الیکشن کی گہما گہمی اپنی جگہ، انتخابی میدان میں جو پارٹیاں لنگر لنگوٹیاں کس کر اپنے تمام مالیاتی ودیگر وسائل کے ساتھ میدان میں جلوہ گر ہیں، اپنی اپنی جیت کو ممکن بنانے کیلئے مختلف نوعیت کے دعوئوں کے ساتھ وعدوں کے ہمالیہ بھی کھڑا کرتے جارہے ہیں وہ بھی اپنی جگہ اگر چہ عوامی سطح پر اس حوالہ سے ملا جلا ردعمل وقفے وقفے سے سامنے آرہاہے لیکن اس انتخابی پراسیس نے کچھ ایک بدمزگیوں کو بھی جنم دیا ہے۔
کئی معاملات کے حوالہ سے کچھ پارٹیوں کی جانب سے جھوٹ کا سہارالیا جارہا ہے ، کچھ کی طرف سے گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا جارہاہے ،کچھ ایک اپنے مخالفین کے چناوی منشور کو اُس کے سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں اور وہ کچھ کہہ رہے ہیں جس کا اُن چنائو منشوروں میں کوئی تذکرہ شامل نہیں، کل تک قوم پرست اورمحب وطن اور شریک اقتداروں کے ساتھ فخر سے گلے ملنے والے آج کی تاریخ میں انہیں اینٹی نیشنل ، پاکستان کی ہدایت اور ایما پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے پیش کرنے اور انتخابات میں اپنی جیت کو ممکن بنانے کیلئے سابق جنگجوئوں کی انتخابی ریلیوں میںشرکت کرکے ان کی مدد حاصل کرنے کے دعوئوں کے ساتھ فضا کو ہرممکن طریقے سے مکدر بنانے کے جتن کررہے ہیں۔
بہرحال جن پارٹیوں باالخصوص نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کونشانہ بنایاجارہا ہے بھی خاموش نہیں اور وہ بھی ترکی بہ ترکی اپنے سیاسی مخالفین کے دعوئوں اور الزامات کا جواب دے رہی ہیں اور کچھ کچھ معاملات میںپلٹ وار بھی کئے جارہے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے مخالفین اپنی شکست کو محسوس اور دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہورہے ہیں جبکہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی قیادت اس نریٹو کے ساتھ اپنے مخالفین پر وار کررہی ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین کی اعلیٰ قیادت اتحاد کی کامیابیوں اور پارٹی اُمیدواروں کے تئیں عوامی جوش وجذبہ دیکھ کر پریشان ہیں اور پریشانی اور بوکھلاہٹ میںگمراہ کن پروپیگنڈہ کا سہارا لے کر اپنی روایت اور روایتی فکر اور طرزعمل کو جموں وکشمیرکے حوالہ سے بھی گلے لگانے کے راستے پر گامزن ہورہے ہیں۔
اگر واقعی کشمیرنشین کچھ سیاسی پارٹیوں کے چناوی جلسوں اور ریلیوں میں سابق اور حاضر جنگجوشرکت کررہے ہیں تو ایڈمنسٹریشن اس بارے میں پھر خاموش اور بے اعتنا کیوں ہے ۔ کیوں ایسے عنصر کی سرکوبی نہیں کی جارہی ہے اور اگرواقعی ریلیوں میں ان کی شرکت کا دعویٰ سچ ہے تو پولیس اور ایجنسیاں خاموش اور تماشہ بین کیوں بنی ہوئی ہیں۔ لوگ بحیثیت مجموعی ایسا نہیں چاہتے کہ کشمیر کی تباہی اور بربادی کے یہ علمبردار کسی نئے لبادے میں کشمیرکو نئے سرے سے آگ کے شعلوں کی نذر کریں۔
ایڈمنسٹریشن مسلسل دعویٰ کرتی رہی ہے کہ دہشت گردی کے ایکو سسٹم کی سرکوبی کی سمت میں کوئی تساہل برتانہیں جارہاہے اور نہ ہی اس ایکو سسٹم سے وابستگان کے ساتھ کوئی نرمی روا رکھی جاسکتی ہے پھر انکی انتخابی جلسوں میںشرکت ایڈمنسٹریشن کیلئے قابل برداشت کیوں بن چکی ہے؟لیکن اس نوعیت کا دعویٰ کرنے والے اگر محض اپنے ووٹ بینک کی خاطرکسی جھوٹ اور غلط بیانی کا سہارا لے رہے ہیں تو ایڈمنسٹریشن کیلئے کیا یہ لازمی نہیں کہ وہ صورتحال واضح کرے۔
غلط بیانی کا راستہ اختیار کرنے ، جھوٹ کو باربار دہرا کر جھوٹ کو سچ باور کرانے اور تقریروں میںجموں وکشمیرکے عوام کو درپیش حساس اور سنگین نوعیت کے معاشی اور معاشرتی مسائل کا حوالہ دینے والوں کو اینٹی دُشمن کے طور پیش کرنے کا ایک اور راستہ بھی اختیار کیاجارہاہے۔ اس تعلق سے پارلیمنٹ میںاپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کی رام بن کے سنگلدان اور پھر کشمیر آکر ایک اورعوامی جلسے سے کئے خطاب کو لے کر الیکٹرانک میڈیا کاایک مخصوص فکر کا حصہ اہم کردار اداکررہاہے۔ راہل کو طعنہ دیاجارہاہے کہ جو شخص بھارت جوڑو یاترا کے دوران ملک کو جوڑنے اور نفرت کی جگہ محبت کی دکان کھولنے کا دعویٰ کرتا رہا جموں وکشمیرمیں باہر کے لوگوں کو روزگار اور ٹھیکے الاٹ کرنے کی مخالفت کرکے اب توڑنے کی بات کررہاہے۔
کچھ ٹیلی ویژن چینلوں کی طرف سے یہ خباثت درحقیقت ان کے اُس پرانے ایجنڈا کا ہی ایک اور تسلسل ہے جس کا حوالہ دے کر ایک سابق گورنر ست پال ملک اپنے عہد کے دوران بار بار کہاکرتے تھے کہ یہ ٹیلی ویژن چینلیں کشمیری عوام کو ملکی رائے عامہ کے سامنے عفریت کے طور پیش کرکے ملکی رائے عامہ کو نہ صرف گمراہ کررہی ہیں بلکہ کشمیر کے خلاف رائے عامہ کو متنفر، بدظن اور بھڑکارہی ہیں۔ راہل گاندھی نے جن معاملات کو اُبھارا ہے کیا وہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ،کیا یہ سچ نہیں کہ تمام کاموں کے ٹھیکے بیرون جموںوکشمیر کے ٹھیکہ داروں کو الاٹ کئے گئے ہیں یہاں تک کہ کارپارکنگ کی جگہیں تک انہی کیلئے وقف ہیں۔ کیا ملک کے ہر صوبے میں سنز آف دی سوئل کا نعرہ تصور اور پالیسیوں کو عملی جامہ نہیں پہنا یاجارہا ہے ، جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر تو لاکھوں بیرونی کارکنوں اور مزدوروں کوروزگار فراہم کررہا ہے، اس کے بارے میں یہ مخصوص چنلیں کبھی اپنی زبانوں کو حرکت نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی کشمیریوںکی طرف سے ان بیرونی لاکھوں مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کے جذبے اور سرپرستی کی سراہنا کرتے دیکھی گئی ہیں۔
الیکشن کی گہما گہمی اپنی جگہ ، لوگوں کاان میں شرکت کے حوالہ سے جوش وجذبہ کااظہار فطری بھی ہے اور قابل سراہنا بھی ، اس لئے کہ کافی عرصہ بعد بندوقوں کے سائے ہٹ جانے کے بعد یہ الیکشن ہورہے ہیں اگر چہ ماضی میںبھی الیکشن کا انعقاد ہوتا رہا ہے لیکن اب کی بار عوام میںکچھ نئی اُمیدیں اور توقعات ہیں لیکن اسی الیکشن عمل کو محض ہوس اقتدار یا پراکسی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی نیت سے اس الیکشن فضا کو مکدر بنانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جارہی ہے اور آبادی کے مختلف حلقوں کے درمیان اختراعی نزاعی معاملات کو اُچھال کر انہیں تقسیم بھی کیاجارہاہے اور باہم گریبان بھی کرنے کی مذموم کوشش بھی !
مرکزی الیکشن کمیشن اور اس کی ماتحت مقامی اکائی فضا کو مکدر بنانے اور گمراہ کن بیان بازیوں، جھوٹ پھیلانے ، فرقہ وارانہ یکجہتی کو دانستہ طور سے زک پہنچانے، قومی دھارے سے وابستہ دو اہم کشمیر نشین پارٹیوں کو قوم دُشمن اور ملک دُشمن کے طور پیش کرکے رائے عامہ میں فکری اعتبار سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کہ اگر یہ الیکشن میں کامیاب ہوئی اور برسراقتدار آگئی تو کشمیر میںپھر سے دہشت گردی کا دور واپس آجائیگا لیکن ساتھ ہی یہ کہ ان پارٹیوں کو اقتدار( کامیابی کی صورت میں بھی )نہیں سونپا جائے گا کیا غیرآئینی ، غیر جمہوری اور آمرانہ ہونے کے باوجود کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیاجارہاہے اس کے برعکس بغیر اجازت کے ریلی نکالنے کو عظیم جرم قرار دے کر مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔ اگر چہ قانون اور ضوابط کا تقاضہ یہی ہے کہ پیشگی اجازت حاصل کی جائے۔