منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

تلخ نوائی کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں

کوئی کشمیر کا مسیحا ہے اور نہ دودھ کا دھلا ؟

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-08-14
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

ایک طرف ہر ایک کو الیکشن کمیشن کی جانب سے چنائو تاریخوں کا اعلان کا انتظار ہے تو دوسری جانب کم وبیش ہر سیاسی جماعت کے اندر کسی نہ کسی اشو کے حوالہ سے جیوتیوں میں دال ہی نہیں بلکہ دالیں بٹ رہی ہیں۔
کانگریس مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر اگلی حکومت تشکیل دے گی لیکن موجودہ قیادت کے خلاف اندرون خانہ جنگ جاری ہے۔ موجودہ صدر وقار رسول وانی کے خلاف نہ صرف کشمیر سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان نے بغاوت کا جھنڈا بلند کردیا ہے بلکہ جموں نشین کانگریس کے حوالہ سے بھی صورتحال یہی ہے۔اس خانہ جنگی اور اس کے جاری رہنے کی صورت میں پارٹی کو الیکشن کے حوالہ سے کس نوعیت کی صورتحال کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے اُس کااحساس کانگریس ہائی کمان کو ہورہا ہے چنانچہ موجودہ صدر اور سابق صدر اور دوسرے دھڑوں سے کہاجارہا ہے کہ وہ آپسی اختلافات کو ختم کرکے یا فی الحال الیکشن کی مصلحتوں کے پیش نظرحاشیہ پر رکھتے ہوئے ایک جٹ ہوکر اُمیدواروں کا انتخاب عمل میں لاکر ایک صف پر کھڑا ہونے کا تاثر پیش کریں۔
حکمران جماعت بی جے پی حالیہ پارلیمانی نتائج کے تناظرمیں ہر اسمبلی حلقے سے حاصل پارٹی کے حق اور مخالفت میں بڑے ووٹوں کا تجزیہ کرکے پریشان اور فکر مند ہیں۔ جموںخطے کے ہی حوالہ سے چناب اور پیر پنچال خطے اس کیلئے خاص طور سے پریشانی اور فکر مندی کا موجب بن چکے ہیں چنانچہ الیکشن میں کچھ ایسے اُمیدوار جو کامیابی حاصل کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں (باالخصوص مسلم اُمیدوار) کو تلا ش کرنے کیلئے پارٹی کیڈر سے متحرک ہونے کی تاکید کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ پارٹی صدر رویندر رینہ اپنے آبائی اسمبلی حلقہ نوشہرہ سے بھی اپنے حق میں ووٹ حاصل نہیں کرسکے ہیں حالانکہ وہ مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ اگلی حکومت انہی کی ہوگی۔
جموںنشین بی جے پی کی پریشانی اس حوالہ سے بھی ہے کہ جموں کے ۴۳؍ اسمبلی حلقوں میں سے نیشنل کانفرنس نے کم سے کم سات اسمبلی حلقوں میں حالیہ پارلیمانی الیکشن میں برتری حاصل کی۔ جبکہ پارٹی کو صرف ۲۹؍ حلقوں سے جیت حاصل ہوسکی۔ کانگریس بھی بلندو بانگ دعوئوں کے باوجود ان ۴۳؍ حلقوں میں سے صرف سات حلقوں سے اپنے لئے برتری حاصل کرسکی لیکن دعویٰ اگلی حکومت اپنے بل بوتے پر تشکیل دینے کا کیا جارہا ہے۔
کشمیر کے حوالہ سے جو منظرنامہ اب بتدریج اُبھرتا جارہا ہے کیا وہ کسی نئی سیاسی صف بندی کیلئے کوئی راستہ ہموار کرنے کا موجب بن جائے گا یا سیاسی اور الیکشن منظرنامہ کو مزید تذبذب اور خلفشار سے ہم کنار کرنے کی کوئی نئی بُنیاد عطاکرنے کا باعث بن جائے گا، اس پر توجہ اور نگاہیں مرتکز رہینگی البتہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے یوٹی کی حیثیت میںالیکشن عمل کا حصہ نہ بن جانے پر اپنی اپنی دستبرداری کا اعلان کرکے جہاں ایک نئے نریٹو کی بُنیاد ڈالی ہے وہیں نتائج کے تعلق سے ان دونوں کے اعلانات پر مختلف حلقوں کی جانب سے کسی حد تک مایوسی بھی اور منفی ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے جو دونوں پارٹیوں کے الیکشن نتائج پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔
اس حوالہ سے ابھی سے یہ سوال کیاجارہا ہے کہ اگر محبوبہ اور عمر عبداللہ یوٹی کی موجودہ حیثیت میں الیکشن کو میونسپل کونسل کے مترادف قرار دے کر خود کو اس عمل سے دستبردار قرار دے رہے ہیں تو اپنی اس ناپسندکو اپنی اپنی پارٹیوں کے ممکنہ اُمیدواروں کیلئے کیسے پسندیدہ ،حق بہ جانب اور اختیارات کے حوالہ سے قابل عمل اور قابل گوارا تصور کررہے ہیں؟ جبکہ اسی کو بُنیاد یا چنائو منشور کا ایک حصہ بناکر عوام کے سامنے جاکر اپنے اپنے اُمیدواروں کے حق میںالیکشن مہم کی قیادت کرکے لنگڑی اور بے اختیار اسمبلی کی تشکیل میں حمایت اور تعاون حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے ۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے نہ صرف خود الیکشن میدان میںاُترنے بلکہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ قبل از وقت انتخابی گٹھ جوڑ کرنے کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میں مرا نہیں‘‘۔ بیٹا کہہ رہا ہے کہ انہیں یوٹی حیثیت میں الیکشن لڑنے ، میونسپلٹی کی حیثیت کے برابر اسمبلی اور بے اختیار حکومت کی تشکیل منظورنہیں لیکن باپ الیکشن لڑنے اور بغیر کسی انتخابی گڑھ جوڑ کے اپنے بل بوتے پراگلی حکومت اسی حیثیت میںتشکیل دینے کیلئے ذہنی، فکری اور عملی طور سے تیار بیٹھے ہیں۔کیا یہ سیاسی تضاد نہیں یا پارٹی کی سیاسی ڈرامہ بازی کے حوالہ سے کوئی نیا باب ہے؟
محبوبہ مفتی کے الیکشن سے دستبرداری کے اعلان کا مطلب یہ بھی ہے کہ پارٹی الیکشن میدان میں اُترے گی تو وزیراعلیٰ عہدے کیلئے اس کا کوئی چہرہ نہیں ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف سنجیدہ عوامی حلقوں میں اس پارٹی کے تعلق سے یہ تاثر عام ہی نہیں بلکہ مستحکم بھی ہوتا جارہا ہے کہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جو لوگ پارٹی چھوڑ کر چڑھتے سورج کی پوجا کی چاہت میں دوسری پارٹیوں میں سجدہ ریز ہوتے گئے اور اب انہی کو واپس پارٹی میں لیاجارہاہے یہ ابن الوقتی اور موقعہ پرستی کی ابتر ترین عمل ہے۔ ان کی عمومی زبان میںآیا رام گیا رام یا کوٹ بدلو کی اصطلاح میں بھی شناخت بنتی جارہی ہے۔یہ بھی ایک نظریہ ہے کہ انہیں ووٹ دے کر ووٹ کوضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والوں کو قابل اعتماد تصور نہیں کیاجاسکتا ہے کہ کب اور کس وقت وہ پھر سے سائوتھ اور نارتھ بلاکوں اور اپنے سابق لیڈر کے ناکام وژن اور مشن کو کوئی نیا چوغہ پہنا کر کسی نئی بوتل میں انڈیل کر یہ دعویٰ کریں گے کہ یہ نیا روح افزا ہے۔
فاروق عبداللہ کے واضح اعلان کے ردعمل میں کانگریس اب پی ڈی پی کو اپنے ایک اتحادی کے روپ میں دیکھنے لگی ہے۔ دونوں کے درمیان ممکنہ چنائوی گٹھ جوڑ کی راہیں تلاش کی جارہی ہے جبکہ کانگریس کا بھی کہنا ہے کہ وہ وادی میں ہر اسمبلی حلقے سے اپنے اُمیدوار کھڑا کرے گی۔ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا کے مترادف کانگریس قیادت کے پاس ایسا کیا ہے جو وہ اہل وادی کے لئے سیاسی لینڈ سکیپ کے حوالہ سے پیش کرکے ان کااعتماد حاصل کرسکے۔ کیا کانگریس کے ممکنہ اُمیدوار لوگوں سے یہ کہکر ووٹ طلب کریں گے کہ کانگریس نے اپنے دور اقتدار کے دوران آئین کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵؍اے کو اندر ہی اندر سے اس قدر کھوکھلا کردیا تھا کہ جب اگست ۲۰۱۹ء میں اس کا آخری جنازہ نکالا گیا تویہ پہلے ہی مردہ حالت میں تھی یا کانگریس کی اُن عہد شکنیوں کا نکارا جائے گاجو عہد وپیمان کانگریس کی صف اول کی قیادت نے الحاق کے وقت ،الحاق کے بعد اور آئین سازی کے دوران اور دہلی اگریمنٹ کے وقت یا لال چوک میںلوگوں کے اژدھام کے سامنے آنجہانی جواہر لال نہرو نے کئے تھے یا الیکشن عمل ہی کے حوالہ سے کشمیرمیں سالہاسال تک روا انتخابی دھاندلیوں کی یاد ماضی کا حوالہ دے کر؟
ہم تلخ نہیں لیکن یاد ماضی تلخ نوائی پرا س لئے مجبور کررہی ہے کہ آج کی تاریخ میں کئی سیاسی کردار خود کو کشمیرکے مسیحا کے طور پربھی پیش کررہے ہیں اور خود کو دودھ اور شہد کی بہتی نہرو ںمیں دھلے بھی ، لیکن جو وہ نہیں ہیں۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

قائد ثانی کی بریکنگ نیوز!

Next Post

مولانا طارق جمیل سے ارشد ندیم کی ملاقات؛ 5 لاکھ روپے انعام

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کیساتھ بھارتی و غیرملکی فینز کی سلفیاں

مولانا طارق جمیل سے ارشد ندیم کی ملاقات؛ 5 لاکھ روپے انعام

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.