بالآخر بول ہی پڑے۔ سابق والی ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ اپنی طویل خاموشی سے باہر نکل کر جموںوکشمیر کے تعلق سے مختلف نوعیت کے حساس اور سنگین سیاسی وغیر سیاسی معاملات پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیاہے۔ ڈوگرہ ریاست کو دوحصوں میں تقسیم کرنے، ریاست کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے ، عمرعبداللہ کی حالیہ شکست اور اس کے مدمقابل اسیر زندان انجینئر رشید کی بحیثیت آزاد ممبر کے الیکشن میںغیر متوقع کامیابی حاصل کرنے، الیکشن سے قبل ریاستی درجہ بحال کرنے اوراس سے بڑھ کر ریاست جموںوکشمیر کا تنزل یقینی بناتے ہوئے اب بحیثیت یونین ٹیریٹری ہماری حیثیت ہریانہ، ہماچل پردیش اور اُترا کھنڈ سے بھی گئی گذری بن گئی ہے۔
عمرعبداللہ کی انتخابی شکست پر اپنی مایوسی کا برملا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر ترین اور جموںوکشمیر کے بزرگ سیاستدان ڈاکٹر کرن سنگھ نے کہا کہ ’’عمر کی پارلیمنٹ سے غیر موجودگی کھٹکتی رہیگی اگر وہ پارلیمنٹ کیلئے رکن منتخب ہوتے تو اس کیلئے ایک اثاثہ ثابت ہوتے۔انہوںنے وہی غلطی کی جو میںنے الیکشن لڑنے کے حوالہ سے ادھمپور حلقہ سے جموںحلقے کی اور منتقل ہوکر کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرینگر نیشنل کانفرنس کا ایک مضبوط سیاسی قلعہ ہے‘‘۔
یہ حقیقت کہ انجینئر رشید نے جیل میں ہوتے ہوئے بھی کامیابی حاصل کرلی لوگوںنے ایک واضح پیغام دیدیاکہ وہ مرکز میں حکمران پارٹی بی جے پی سے خوش نہیں، سوال کیا کہ کیا ایسا ہی نہیں ہے؟انہوںنے الیکشن کے انعقاد اور ریاستی درجہ کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج کی ریاست اُس ریاست سے بالکل مختلف ہے جس کا قیام مہاراجہ نے عمل میں لایا تھا۔ یونین خطہ کے تحت اسمبلی کا قیام میونسپل کونسل ایسے الیکشن کے سرپر تاج رکھنے کے مترادف ہے۔ تاہم وہ اس خدشہ کا بھی اظہار کرتے نظرآرہے ہیں کہ شیخ رشید کو جیل سے رہائی ممکنات میںنہیںہے لیکن اس کے باوجود مرکزی حکومت کو وادی سے ایک پیغام چلاگیاہے‘‘۔
کرن سنگھ نے ان مخصوص معاملات پر کھل کر اور واضح الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اس میں جہاں کچھ معاملات کے تعلق سے درد اور کرب چھپا ہوا ہے وہیں حکمران اتحاد جماعت کیلئے بھی ایک واضح پیغام ہے ۔البتہ اس پیغام اور سابق والی ریاست ہونے کے ناطے ان کے اندر کے درد اور کرب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہی ہے کہ کیا اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی جائیگی، کسی سنجیدگی سے لیاجائے گا، اندھی سیاسی مصلحتوں اورانتظامی مفادات سے مطیع اقدامات اور فیصلوں کو ملک اور جموں وکشمیرکے وسیع تر مفادات اور نظریہ وحدت وسالمیت کے تناظرمیں حاشیہ پر رکھنے کو ترجیح دی جائیگی ،لگتا تو نہیں پھر بھی اُمید کا دامن تھامے رکھنے میںحرج نہیں۔
ریاستی درجہ کی بحالی اور الیکشن کے تعلق سے کرن سنگھ نے ایک ایسی منظر کشی کی ہے جس منظر کشی کو کشمیر اور جموں نشین کم وبیش سبھی سیاسی پارٹیاں اور ان سے وابستہ قیادت یا تو دانستہ طور سے نظرانداز کررہے ہیں یا اِس اشو کو کسی اہمیت کا حامل نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اگر چہ ندائے مشرق کے انہی کالموں میںاب تک متعدد بار نشاندھی بھی کی جاتی رہی اور دوٹوک الفاظ میں سمجھانے کی بھی کوشش کی گئی کہ یونین ٹیریٹری کے ہوتے جو اسمبلی وجود میںآئیگی اوراس کے بطن سے جو حکومت تشکیل پائے گی اُس کی کوئی اختیاری اور فیصلہ سازی کی حیثیت نہیںہوگی۔ مطالبہ کیا جاتارہا کہ سیاسی پارٹیاں اس وقت تک مجوزہ الیکشن کا حصہ نہ بنیں جب تک نہ پہلے تمام تر اختیارات کے ساتھ ریاستی درجہ بحال کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ سیاسی قیادت کے سبھی دعویدار پہلے الیکشن چاہتے ہیں تاکہ اقتدار کی لیلیٰ کو اپنے ہوس گیرانہ گلے کا ہار بنانے کا راستہ ہموار ہوسکے۔
ڈاکٹر کرن سنگھ نے یونین ٹیریٹری کے تحت الیکشن کو میونسپل کونسل کے مترادف الیکشن کو سر پر تاج رکھنے کے برابر قرار دے کر سیاسی پارٹیوں کو براہ راست یہ انتباہ دیا کہ وہ باز آجائیں اور پہلے الیکشن کی حریصانہ، راگنی کے مسلسل الاپ سے باز آجائیں۔ اس سمت میں کرن سنگھ نے ہماچل، اتراکھنڈ اور ہریانہ ریاستوں کی مثالیں پیش کرکے کیا کشمیراور جموں کی سیاسی پارٹیوں کو یہ واضح پیغام نہیںدیا کہ وہ خودکشی کے راستے پرہیں یعنی دوسرے الفاظ میں اس کے اندر یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ الیکشن کے بعد کون سی ضمانت ہے کہ الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوتے ہوئے ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا۔ الیکشن کے انعقاد کا فیصلہ لینے میں دس سال لگ گئے تو ریاستی درجہ کی بحالی کی مدت کا تعین کیا اتنا آسان ہے۔
اسی مخصوص تناظرمیں جب ڈاکٹر کرن سنگھ سابق ریاست جموں وکشمیر کے تعلق سے بات کرتے ہیں تو وہ یہ واضح کررہے ہیں کہ ’’یہ کمپوزٹ سٹیٹ ہے ، گلگتی ،لداخی ، کشمیری ،گجر، پنجابی مسلمان اور ڈوگروں پر مشتمل ہے۔ یہ کبھی بھی ایک واحد اکائی نہیں تھی اور اس حیثیت کو محفوظ (برقرار) رکھنا ہوگا۔ سوسال کے ڈوگرہ اقتدارکے دوران ہم ریاست میں آپسی یکجہتی اور امن بنائے رکھنے میںکامیاب رہے ہیں‘‘۔ڈاکٹر موصوف واضح طور سے ریاست جموںوکشمیر کی دو یوٹیوں میں تقسیم یا ریاست کی تنظیم نو کے مرکز کے فیصلے کو یکسر اور ٹھوس الفاظ میں مسترد کررہے ہیں۔
جموںوکشمیر کے ایک بزرگ اورسینئر سیاستدان سے اسی کردار اور رول کی توقع ہے۔ سینئر لیڈروں میںدوسرے درجے پر عمر کے اعتبار سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ ہیں۔ لیکن جس برملا اظہار میں کرن سنگھ اب کی بارمختلف حساس سیاسی، انتظامی اور ریاستی معاملات پر بات کرتے نظرآرہے ہیں وہ انہی کا خاصہ ہے اور کسی کا نہیں۔ بات کرتے وقت ٹھوس بُنیاد ، روشن تاریخی حقائق، زمینی سطح پر لوگوں کی سمجھ اور ردعمل ، اور سب سے بڑھ کر ریاست کی تقسیم اور درجہ بندی میں اس کے تنزل کو لے کر جن خیالات اور امکانات کو زبان دی ہے کیا کشمیرنشین اور جموںنشین سیاسی قیادتوں کے دعویدار اُس حساسیت کا فہم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر رکھتے ہوتے تو اب تک اس کا اظہار بھی ان کی طرف سے سامنے آچکا ہوتا،نہیں آرہاہے، برعکس اس کے وہ حصول اقتدار کی تڑپ اور ہوس میں مرے جارہے ہیں، وہ کسی بھی قیمت اور کسی بھی نوعیت کی سودا بازی کیلئے ذہنی ، جسمانی اور عملی طورسے آمادہ نظرآرہے ہیں ، جس کی طرف اب مختلف پارٹیوں کی طرف سے واضح اشارہ ملنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔
اس حوالہ سے کانگریس ابھی سے بندر بانٹ میں مصروف ہوگئی ہے اور امکان ہے کہ وہ کشمیر سے ۱۵؍ اسمبلی حلقوں پر نیشنل کانفرنس کے عوض اپنی دعویداری پیش کرے جبکہ اس پارٹی کو جموں سے سات اسمبلی حلقے الیکشن لڑنے کیلئے پیش کرنے کا من بنارہی ہے۔ کانگریس کے ان اندھوںسے کوئی یہ تو پوچھے کہ اس پارٹی نے کشمیر سے کب اتنی نشستیں جیت لی ہیں۔ پتہ نہیں ، یہ پارٹی کن اندھے گھوڑوں پر سوار ہے جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یہی پارٹی جموںوکشمیر کی سیاسی،اقتصادی اورمعاشرتی تباہی وبربادی کی براہ راست ذمہ دار ہے اور کشمیرکے ساتھ ہمالیائی عہد شکنیوں کی بھی!