ماسکو//
روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے یوکرین کا تنازع حل کرنے کیلئے نیا امن فارمولہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوکرینی افواج روس سے الحاق کرنے والے یوکرینی علاقوں ڈونیٹسک، لوہانسک، خیرسون اور زاپورزیا سے مکمل طور پر نکل جائیں اور یوکرین نیٹو میں شمولیت سے انکار کرے تو اس کے بعد ماسکو جنگ بندی کردے گا اور بات چیت کا آغاز کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین سے متعلق سمجھوتوں کو عالمی معاہدے بنانا ہوگا، جس میں کرایمیا اور سیوستوپول کو بھی روسی علاقے تسلیم کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ روس تاریخ کا سانحہ سے بھرا صفحہ پلٹ کر یوکرین اور یورپ سے تعلقات بتدریج بہتر کرنا چاہتا ہے، تاہم اگر یوکرین اور مغرب بات چیت کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں تو وہی خون خرابے کے ذمہ دار ہوں گے۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ روس پہلے روز سے امن چاہتا ہے مگر مغرب نہ صرف روس کے مفادات کو نظر انداز کررہا ہے بلکہ یوکرین کو روس سے مذاکرات کرنے سے بھی روک رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ احمقانہ لگتا ہے کہ ایک طرف یوکرین پر روس سے بات کرنے پر ممانعت ہے اور ساتھ ہی ماسکو سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بات چیت کرے، پھر کہہ دیا جاتا ہے کہ روس نے بات چیت سے انکار کردیا ہے۔
صدر پیوٹن نے توقع ظاہر کی کہ یوکرین اپنے قومی مفاد میں اس نتیجے پر پہنچے گا کہ بات چیت کرے۔
پیوٹن نے کہا کہ وہ مسئلہ کو منجمد کرنا نہیں ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے یوکرین نیوٹرل، غیروابستہ، غیر ایٹمی ملک بنے، غیرفوجی اور غیر نازی بھی ہو۔
صدر پیوٹن نے واضح کیا کہ قانونی طور پر یوکرین کی پارلیمنٹ سے بات چیت کی جاسکتی ہے، تاہم انہوں نے موجودہ صدر کے بارے میں کہا کہ زیلنسکی کی قانونی حیثیت بحال نہیں ہوسکتی۔
پیوٹن کا کہنا تھا کہ سن دو ہزار اکیس بائیس کے سیکیورٹی پروٹوکول پر واپسی ناممکن ہے تاہم بات چیت کے بنیادی اصول وہی رہیں گے۔
سن دو ہزار اکیس میں صدر پیوٹن نے بات چیت کیلئے بنیادی شرط رکھی تھی کہ نیٹو کو اپنے فوجی انفرااسٹرکچر کو انیس سو ستانوے کی پوزیشن پر واپس لے جانا ہوگا۔
انیس سو ننانوے میں ہنگری، پولینڈ اور جمہوریہ چیک نیٹو میں شامل ہوگئے تھے اور سن دوہزار چار میں بلغاریہ، لیٹویا، لیتھوینیا، رومانیہ، سلواکیہ، سلوینیا اور اسٹونیا بھی نیٹو کا حصہ بنادیے گئے تھے۔
سن دوہزار نو میں البانیا اور کروشیا، سن دو ہزار تیرہ میں مونٹی نیگرو اور سن دوہزار بیس میں شمالی مقدونیہ بھی نیٹو کاحصہ بن گئے۔ اور نیٹو کی اوپن ڈور پالیسی جاری ہے۔
روس کے صدر نے خبردار کیا کہ یوکرین تنازع روس سے مخلصانہ بات چیت کیے بغیر کبھی حل نہیں ہوگا۔