گذشتہ چند دنوں کے دوران جموں خطے میں پے درپے دہشت گردانہ حملوں نے ایک بار پھر اُس فکرمندی اور تشویش کو شدت عطاکی ہے جو اس حوالہ سے کچھ دہائیوں سے محسوس کی جاتی رہی ہے ۔ فورسز، ایڈمنسٹریشن، سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ اوسط شہری اس صورتحال سے متفکر اور پریشان ہے البتہ اس تعلق سے سب سے افسوسناک بلکہ شرمناک پہلو اور انداز فکر یہ ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیوں کے درمیان کچھ ایسی بیان بازی کی جارہی ہے جس کو مہذب سماج اور سنجیدہ سیاسی وعوامی حلقے ان کی سیاسی جاہلیت قرار دے رہے ہیں اور ساتھ ہی ان کچھ میڈیا چینلوں کی جانب سے اس مخصوص اشو اور بیان بازیوں کو جس انداز، لہجہ اور مخصوص انداز میں پیش کرنے کی غالباً دانستہ کوشش کی جارہی ہے وہ صحافت نہیں بلکہ صحافت کے نام پر ایک دھبہ ہے جن دھبوں کو ثبت کرنے کیلئے مخصوص ذہنیت اور فکر کی حامل میڈیا چینلوں کی نہ صرف کچھ مخصوص حلقوں کی جانب سے سرپرستی اور معاونت کی جارہی ہے بلکہ حوصلہ افزائی بھی۔
اس میں شک وشبہ کی کون سی گنجائش باقی رہ گئی ہے کہ جموںوکشمیر میں سرحد پار سے دراندازی ہورہی ہے اور دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور لوگوں کو پریشانیوں اور تکالیف میں مبتلا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی بھی جارہی ہے اور اس سلسلے میں مختلف طریقے اور حربے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ یہ زمینی صورتحال اب ۱۹۹۰ء سے جاری ہے۔ کشمیر کی کم سے کم دو نسلیں اب تک اس مخصوص مدت کے دوران نابود ہو چکی ہیں دہشت گردانہ کارروائیوں کادائرہ کبھی ایک جگہ سے نمودار ہوتا ہے تو کبھی دوسری جگہ سے، بحیثیت مجموعی سارا جموں وکشمیر اس کی لپیٹ میں ہے۔ قطع نظر ان سرکاری دعوئوں کے کہ کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوچکی ہے اور اب مشکل سے ۲۰…۳۰؍ جنگجو کچھ علاقوں میں موجود ہیں۔ لیکن اس نوعیت کے بیانات جو بلند وبانگ دعوئوں کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں کی صدائے بازگشت ابھی سنائی ہی دے رہی ہوتی ہے کہ یہ نیا مژدہ سنایا جاتا ہے کہ سرحد پر موجود لانچنگ پیڈوں پر نئے ریکروٹ دراندازی کی تاک میں ہیں۔
اس مخصوص صورتحال کے ہوتے کہاں اور کس حد تک یہ دعویٰ زمینی حقیقت سے مطابقت رکھتے ہیں کہ دہشت گردی کا قلع قمع کردیاگیا ہے ۔ تازہ ترین حملوں اور مجموعی صورتحال کے ہوتے کشمیرنشین کوئی قومی دھارے سے وابستہ سیاسی لیڈر اس پریشان کن منظرنامہ کا حوالہ دے کر اگر دہلی پر یہ بات باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ دہشت گردی کاخاتمہ کرنے کے لئے پاکستان سے بات چیت ناگزیر ہے تو اس پر مختلف سیاسی اور مخصوص ذہن کے حامل میڈیا ہائوسوںکے سیخ پا ہونے کا کون سا اخلاقی جواز ہے۔ اس تعلق سے ڈاکٹر فاروق نے بھی ابھی چند روز قبل ایک بیان دیا جس میںان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ اس معاملے پر بات کئے بغیر دہشت گردی ختم نہیںہوگی تو ایک سیاسی طفل مکتب نے ڈاکٹر فاروق کو مشوردہ دیا کہ وہ پاکستان کا پی آر کا رول ادا کرنے سے باز آجائے جبکہ کچھ میڈیا چینلوں پر بحث کے دوران بھی فاروق عبداللہ کو نشانہ بنانے کی احمقانہ کوشش میں کچھ مقررین کو حد سے تجاوز کرتے بھی دیکھا گیا۔
کیا فاروق عبداللہ پاکستان کی سرپرستی میںجاری دہشت گردی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی حمایت کرتا ہے جس کو لے کر اس کو نشانہ بنانے کا کوئی اخلاقی جواز بنتا ہے؟ وہ پاکستان سے مذاکرات کا مطالبہ کررہاہے تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکے۔ وہ صاف طور سے کہہ رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور سمجھ کے بغیر دہشت گردی کاخاتمہ نہیں ہوسکتا۔ بصورت دیگر یہ جاری رہیگی اور ہمیں اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ معصوم زندگیاں ہلاک ہوتی جارہی ہیں اور جب تک نہ ہم حل تلا ش کرنے کی کوشش کریں گے یہ ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یہی بات کچھ دوسرے الفاظ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم) کے محمدیوسف تاریگامی، ریاستی کانگریس کی قیادت، سابق وزیراعلیٰ محوبہ مفتی ، اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی اور ملکی سطح کی دوسری کئی سیاسی قیادتوں کی طرف سے بھی سامنے آرہی ہے، جس میں اور باتوں کے علاوہ اس مخصوص معاملے پر وزیراعظم کی مسلسل خاموشی کو بھی آڑے ہاتھوں لیاجارہا ہے لیکن بحث صرف فاروق عبداللہ کے مخلصانہ مشورے کو لے کر ہورہی ہے جیسے فاروق عبداللہ ہی دہشت گردی کا امیراعلیٰ ہے؟
ریاستی کانگریس یونٹ کے صدر نے ایک بیان میںکہا ہے کہ ’’بی جے پی لیڈر شپ مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ وہ جموںوکشمیرمیں امن قائم کرنے میںکامیاب ہے، خاص کردفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے بعد سے لیکن وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے یہ سوال تو کیاجاسکتا ہے کہ اگر دعویٰ یہ ہے تو پھر دہشت گرد آتے کہاں سے؟
اس میںدو رائے نہیں کہ یہ معاملہ بھی ملک کی خارجہ پالیسی اور عمل آوری کے اعتبار سے مرکزی حکومت کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار میں آتاہے۔حکومت کا بحیثیت مجموعی موقف اور اپروچ یہ رہا ہے کہ دہشت گردی کے ہوتے اور دراندازی کے ہوتے پاکستان کے ساتھ بات نہیں ہوسکتی۔ اس طرح پاکستان سے مطالبہ کیاجارہاہے یا مشورہ دیا جارہاہے کہ دہشت گردی سے اپنے ہاتھ پیچھے ہٹا لیں تو دوطرفہ معاملات پر بات کا آغاز ہوسکتا ہے۔ حکومت کا یہ موقف آج کی تاریخ کانہیںبلکہ کافی عرصہ سے یہی ہے۔
لیکن اسی موقف کے ہوتے جموںوکشمیر میںکنٹرول لائن کے آر پار جنگ بندی اب تقریبا ۴؍ سال سے جاری ہے، نہ صرف جاری ہے بلکہ کامیابی کے ساتھ اس پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے، جنگ بندی کے نتیجہ میں سرحدی دیہات کی آبادی سکون بھی محسوس کررہی ہے اور روزمرہ کا کام کاج اور زمینداری بھی ہورہی ہے۔ ابھی پارلیمانی الیکشن کے دوران سرحد ی دیہات کی آبادی نے پرجوش انداز میں اپنی حق رائے دہی کا بے خوف وخطر استعمال کیا۔ سنجیدہ حلقے حکومت سے اس کے مذاکرات کے حوالہ سے موقف کے تناظرمیں سوال کررہے ہیں کہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کیا کسی فطرتی عمل کا نتیجہ ہے، کیا یہ جنگ بندی آر پار کے فوجی جنرلوں کے درمیان براہ راست بات چیت اور دونوں ملکوں کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا ثمرہ نہیں!اگر کنٹرول لائن پرجنگ بندی کو یقینی بنانے کیلئے بات چیت میںکوئی مصلحت درپیش نہیں ،ا گر اور مگر کا کوئی موقف اور نظریہ حائل نہیں تو جموںوکشمیر کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں اور سرگرمیوں پر قابو پانے کیلئے دہشت گردی کی سرپرستی اور معاونتی کردارادا کرنے والی قیادت کے ساتھ بات کرنے میںکون سی قباحت حائل ہے؟
معاملہ سنگین نوعیت کا ہے اور سنگینی کا فوری تقاضہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سنجیدہ توجہ مبذول کی جائے۔ اس مخصوص اشو پر میڈیا چینلوں پر جو بحث ہورہی ہے وہ بے تکی ہے، اس میںکوئی منطق نہیںہے کیونکہ بحث میں شرکت کرنے والے کسی بھی حوالہ سے متاثرنہیں بلکہ متاثرین براہ راست جموںوکشمیر کی آبادی ہے اور المیہ تو یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی دہشت گردانہ کارروائی ہوتی ہے اُس کا رروائی کا جہاں پہلا نشانہ مقامی بنتے ہیں دوئم فورسز کی ایجنسیاں تحقیقات اور چھان بین کے نام پر اپنا پہلا وار انہی مقامی آبادی کو حراست میں لے کر بنانے کار استہ اختیا ر کرتی ہے۔ یہ طرزعمل آبادی کے لئے جہاں تکلیف دہ ہے وہیں یہ تاثر بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ آبادی کو علیحدگی پسندی کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے جبکہ لوگ خودکو سراپا قومی دھارے کا ا ن مٹ جز سمجھتے ہیں۔