کشمیر نے ہر دورمیں اور ہمیشہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا خیر مقدم ہی نہیں کیا ہے بلکہ اپنی خدمات اور سہولیات ان کیلئے وقف کرکے کشمیرمیں ان کے قیام کو اطمینان اورراحت بخش بنانے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ یہ کشمیرکی مہمان نوازی اور حسن سلوک کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر دورمیں سیاحوں نے واپسی پر کشمیر کی نہ صرف سراہنا کی بلکہ کشمیر کو جنت بے نظیر قرار دے کر دوسروں کو وادی کی سیاحت کی ترغیب وتحریک کا کردارادا کیا ۔
کشمیر کی سیاحتی صنعت کی نشوونما اور وادی کی سیاحت پر آنے کی تحریک وترغیب کا براہ راست کشمیر کے موسمیاتی ماحول، بحیثیت مجموعی ماحولیاتی توازن، معتدل آب وہوا، اس کے گلیشئر ، پہاڑ، ندی نالیں، جھیل، آبشار اور محسور کن اور دلفریب نظاروں سے ہے۔ اس مخصوص ماحول کو برقرار رکھنے اور قدم قدم پر تحفظ یقینی بنانے کی سمت میں اہم کردار مقامی مکینوں کی معاشرتی اقدار پر سختی سے عمل درآمد ایسے اقدامات اور اپروچ کی ہی مرہون منت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس حوالہ سے یہ بات غالباً بے محل نہیں کہ کشمیر کی سیاحت پر آنیو الے ہر دور میں سیاحوں نے مقامی معاشرتی اقدار اور ماحولیات کے تحفظ کا احترام بھی کیا او راپنے اوپر لازم بھی جانا۔
بے شک دُنیا کے کسی بھی سیاحتی مقام کی سیاحت پر جانے والے سیاح اپنے لئے راحت ، اپنی دلچسپی ،خواہش اور مزاج کے مطابق سہولیات کے طلبگار بھی رہتے ہیں اور قیام وطعام کے حوالہ سے اپنی خواہشات کی تکمیل بھی چاہتے ہیں۔ کشمیراس حوالہ سے نہ مستثنیٰ رہا ہے اور نہ پیچھے رہا ہے لیکن سیاحوں کی خواہشات کی تکمیل او رقیام وطعام کے تعلق سے ان کی ضروریات کا خیا ل رکھنے او رتکمیل کو یقینی بنانے کی سمت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے کشمیر کی سیاحت کو کچھ عناصر اپنی عیاشی کا ذریعہ تصور کرنے لگے ہیں اس تعلق سے وہ نہ صرف اپنی ذاتی اخلاقی حدود کو پھلانگ رہے ہیں بلکہ کھلے عام اپنی عیاشیانہ مزاج، اخلاق سے گری حرکات، تہذیبی جارحیت اور شرابی کبابی ہونے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس انداز فکر اور تمام تر اخلاقیات حدود وقیود سے خود کو آزاد سمجھنے والے سیاحوں کاکشمیر خیر مقدم کرنے کیلئے تیار نہیں۔
شراب کی محفلوں کو چاہئے ڈل جھیل کی پانیوں پر تیر نے والی کشتیوںپر یا سڑکوں پر سجانے والے سیاح چاہئے ملک کے کسی بھی حصے سے آئے ہوں یا غیر ملکی ہوں کی کشمیرکو ضرورت نہیں کیونکہ کشمیری عوام کو نہ صرف اپنے گردوپیش کے ماحولیات کا توازن برقرر رکھنے اور اس کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ اپنے معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار سب سے زیادہ محترم مقدس اور عزیز ہیں اور ان اقدار کو ملیا میٹ یا پائوں تلے روندھ ڈالنے کی کسی کو بھی اجازت نہ دی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس نوعیت کی نا شائستہ اور اخلاق سے گری حرکتیں قابل برداشت ہیں۔
اس حوالہ سے ایڈمنسٹریشن باالخصوص کشمیر کی سیاحتی صنعت سے وابستہ سرکاری وغیر سرکاری اداروں اور ان سے وابستہ فیصلہ ساز افراد کو بھی یہ ذہنی نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیرکی سیاحتی صنعت شراب وکباب کی محفلیں آراستہ کرنے یا کرائے جانے کی سرپرستی کرکے گذری صدیوں کے دوران نہ نشو نما اختیار کرپائی اور نہ ہی ان کی بُنیاد پر دُنیا بھر میں شہرت کا مقام حاصل کرچکی ہے۔ کشمیرکی سیاحتی صنعت اپنے اقدار کی بُنیاد اور مقامی لوگوں کے حسن سلوک ایسے اہم ستونوں پر پروان چڑھتی آرہی ہے۔
گذرے چند دنوں کے دوران کچھ غلط کار ذہنیت کے حامل سیاحوں کی کھلے عام شراب نوشی کے تعلق سے جو خبریں اور عکس بند معاملات منظر عام پر آئے ہیں انہوںنے عوام کو ہلاکے رکھدیا ہے اور سیاحتی صنعت سے وابستہ شکارا والوں، ہائو س بوٹ مالکان ، ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوس مالکان سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے یہاں مقیم سیاحوں کی ہر جائز خواہش اور ضرورت پوری کرنے میںکوئی کسر باقی نہ رکھیں لیکن اپنی سرپرستی اور معاونت میںکھلے عام ان کی شراب نوشی کا نہ حصہ دار بنیں اور نہ حوصلہ افزائی کریں۔
کشمیر رشیوں،سنتوں، منیوں ،ا ولیائے کرام، روحانی اور عظیم المرتبت بزرگوں، صوفیوں کی سرزمین ہے، یہ کوئی مفروضہ ہے نہ دعویٰ بلکہ قدم قدم پران عظیم المرتبت شخصیتوں کی موجودگی آنکھوں کے سامنے ہے، اس مخصوص تناظرمیں سیاحت کی صنعت سے وابستہ بلواسطہ یا بلاواسطہ جو بھی افراد اور ادارے ہیں ان کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ کشمیرکی معاشرتی اقدار کے ساتھ ساتھ قدرت کی عطاکردہ ماحولیات کا تحفظ بھی یقینی بنائے اور اپنے مہمانوں چاہئے وہ سیاح ہی کیوں نہ ہوں پر بھی اس بات کو واضح کرتے رہیں کہ وہ ہمارے مجموعی اقدار اور تہذیب اور ثقافت کا احترام اپنے اوپر لازم سمجھیں۔
ایڈمنسٹریشن کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ کشمیرکے اس مخصوص معاشرتی اقدار کا احترام اپنے اوپر لازم سمجھیں نہ کہ اس معاملے کو شراب کی فروخت سے حاصل آمدنی کو۔ ایڈمنسٹریشن کے ذمہ دار بھی اس حقیقت کی جانکاری رکھتے ہیں کہ خودسٹیٹ کی پالیسی کھلے عام شراب نوش کی اجازت نہیں دیتی اگر چہ ایڈمنسٹریشن نے شراب کے ٹھیکے نیلام کرکے کروڑوں حاصل کرلئے ہیں۔لیکن معاشرتی اقدار، لوگوں کے جذبات اور احساسات اور سب سے بڑھ کر کھلے عام شراب نوشی کے منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات کے پیش نظر ایڈمنسٹریشن بھی بہت حد تک اخلاقی اعتبار سے پابند ہے۔
ان لوگوں ، اداروں اور اگر کوئی این جی او کے نام پر سرگرم عمل ہے اور جو خود کو ماحولیات کے علمبردار جتلا رہے ہیںکی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کرداراداکریں، بڑی اور صاحب اقتدار سے وابستہ محفلوں میںبیٹھنے اور اپنا دبدبہ کا اظہار کرنا ان کی ترجیح نہیںہونی چاہئے بلکہ سماج کے تئیں اپنی کچھ اخلاقی ذمہ داریوں اور فرائض کا بھی احساس کرکے اس سمت میں اپنا کردار اداکرنا چاہئے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے، سڑک چھاپ شرابیوں چاہئے وہ سیاح ہی کیوں نہ ہوں کو کھلے عام شراب نوشی کی لائسنس عطاکرنے اور متعلقہ علاقوں میں گشت اور نگرانی پر پولیس کی چشم پوشی سنگین مضمرات او رنتائج کا موجب بن سکتا ہے۔