کامیاب سیاستدان کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے درج ہوتا ہے جبکہ ناکام سیاستدان کا نام بھی اپنی بداعمالیوں کے ثمرہ کے حوالہ سے تاریخ میں درج ہوجاتاہے۔ظالم اور جبر وقہر کا علمبردار حکمران ہو یا ماضی قدیم کا کوئی شہنشاہ وہ بھی اپنے ظالمانہ کارناموں کی بدولت تاریخ کاحصہ ہے اور رعایا پرور اورانسان پرست حکمران بھی تاریخ کے پنوں میں اپنا مقام پاتا رہا ہے۔
دور حاضر میں کامیاب اور ناکام سیاستدانوں کی فہرست اگر چہ زیادہ لمبی نہیں ہے لیکن کم بھی نہیں ہے۔ جنوبی ایشیاء کے اس خطے کے چند ممالک کے سربراہوں یا سیاستدانوں کا احاطہ کیا جائے تو کامیاب اور ناکام فہرستوں میں بہت سارے سیاستدانوں کے نام درج نظرآرہے ہیں۔ سالہاسال گذرنے کے باوجود کسی کامیاب سیاستدان کا نام نئی آنے والی نسلیں تک احترام سے لیتی ہیں جبکہ ناکام سیاستدانوں یا حکمرانوں کا نام زبان پر آتے ہی نہ صرف بدمزگی محسوس ہوتی ہے بلکہ طبیعت بھی گراں محسوس ہوتی ہے۔
ہندوستان کی سیاسی اُفق پر نظردوڑائی جائے تو بے حد کامیاب سیاستدانوں کی فہرست اچھی خاصی نظرآرہی ہے جنہوںنے نہ صرف ملکی سالمیت اور وحدت کے بقاء اور تحفظ کیلئے خود کو کئی حوالوں سے وقف کررکھا تھا بلکہ ان میں سے بعض بحیثیت حکومتی ذمہ داروں کے بھی عوامی خدمات، تعمیر وترقی اور فلاحی کاموں کے ضمن میں اپنا نام روشن کرکے چلے گئے ہیں۔ ان میں جے پرکاش نرائن، جواہرلال نہرو ، مہاتما گاندھی ، سردار پٹیل ، ڈاکٹر امبید کرجبکہ عصر حاضر کے تعلق سے وزیراعظم نریندرمودی ہندوستان کی آزاد تاریخ کے بے حد کامیاب سیاستدانوں اور قدآور حکومتی ذمہ دار کے روپ میںاُبھر کرسامنے آچکے ہیں۔
سرحد کے اُس پار پاکستان کی سیاسی اُفق پر محض سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو کچھ کامیاب بھی نظرآرہے ہیں تو ناکام سیاستدانوں (حکمرانوں) کی فہرست بھی کچھ کم نہیں۔فی الوقت عمران خان کا نام ایک ایسے پاکستانی سیاست کار کے روپ میں جلوہ گر ہے جو ہر اعتبار سے نہ صرف ناکام ہیں بلکہ جس نے پاکستان کی سیاسی لغت میں گندی گالیوں، بدزبانی، ناشائستگی اور اخلا ق سے گری زبان اور کلچر کی سنگ بُنیاد رکھی ہے اور بدستور رکھتے جارہے ہیں۔
اپنے سیاسی مخالفین کو چور، مافیاز ، ڈاکو ، لیٹرا ، بدمعاش، ڈیزل، بوٹ پالش، غدار، چوہے اور نہ جانے کن کن او راخلاق سے گرے ناموں اور القابات سے مخاطب عمران کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اسی پہ بس نہیں غالباً عمران دُنیا کاواحد حکمران یا سربراہ حکومت ہے جو دبنگ اعلان کررہے ہیں کہ ’’میں ٹماٹر، آلو، پیاز وغیرہ کی قیمتیں مقرر کرنے کیلئے نہیں ہوں……‘‘
سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرنا سیاست کا بُنیادی اصول ہے لیکن جب اس مخالفت کو زاتیات کا رنگ وروپ دے کر سر بازار عریاں حالت میں لاکرپیش کیاجائے اور پھرا سی طرح کی پیشکش کو ’ملکی مفادمیں‘کالبادہ چڑھادیا جائے یا پیش کرنے والے کے اردگرد ،گرہ گٹ، اور گدھوں کی طرح منڈلانے والے مزید مرچ مصالحہ لگاکر پیش کرنے کی دکان سجاتے بیٹھ جائیں گے تو وہ سیاست نہیں بلکہ محض خباثت رہ جاتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی اُفق فی الوقت اسی مرحلہ سے گذر رہی ہے۔بے شک پاکستان کی اپوزیشن سیاست سے وابستہ لوگ دودھ میں دھلے ہیں اور نہ صاف وپاک لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں لیکن عمران کی طرح بات بات اور ہر اشو پر یوٹرن لینے کے خوگر بھی نہیں۔ وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے حامی بھی رہے ہیں اور اس حوالہ سے اپنا کردار بھی اداکرتے رہے ہیں لیکن اپنے کسی ہمسایہ ملک کے سربراہ یا وزیراعظم کے خلاف عمران خان کی طرح بدزبانی اور شائستگی ، اخلاق اور تہذیب سے گری زبان کبھی استعمال نہیں کی۔یہ طرۂ امیتاز کسی کسی کو ہی ہے ۔
ٹماٹر، آلو وغیرہ کی قیمتیں مقرر کرنے یا ان پر نظر رکھنے کی ذمہ داری براہ راست ملک کے سربراہ کی نہیں ہے بلکہ اس کی ماتحت انتظامیہ اور انتظامی کل پرزوں کی ہے۔ لیکن ذمہ داری سے کوئی بھی سربراہ دستبردار یا مستثنیٰ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتاہے۔ بے شک قیمتوں میں اُتار چڑھائو یا افراط زر کا معاملہ بین الاقوامی ہے لیکن بہتر انتظامیہ، نگرانی، اور اقتصادی اصلاحات کا راستہ اختیار کرکے عوام وخاص کیلئے راحتی اقدامات توہر ذمہ دار حکومت کی اخلاقی، آئینی اور معاشرے کے حوالہ سے فرائض منصبی کا ہی تو حصہ ہیں، ایسا لگا رہا ہے کہ عمران خان کو نہ معاشرتی آداب کا کوئی لحاظ ہے ، نہ ذمہ داری کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی وہ زمین پر قدم رکھ کر مثبت سیاست میں یقین رکھتے ہیں۔
سرحد پار کا ملک یوں بھی بیک وقت کئی صدموں اور المیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے،ا س دبائو سے باہر نکالنے کی بجائے پاکستان کا حکمران طبقہ اپنی حماقتوں کے سیلاب میںبہکر اپنے ملک کیلئے کئی نئے ناسوروں کو جنم دیتے جارہے ہیں بلکہ ایک سرکردہ پاکستانی تجزیہ کار، جو سابق سیاستدان بھی رہے ہیں کے مطابق عمران خان اپنی جھوٹی انانیت کی تسکین کی خاطر پورے ملک کو تباہی اور بربادی ہی نہیں بلکہ خانہ جنگی کی ایک نئی دہلیز تک لے جاکر راہ فرار اختیار توکریں گے لیکن جو تباہی وہ لاچکے ہیں اُس کے آثار مطلع پر صاف اور واضح طور سے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ خطے میں کشیدگی اور پُر آشوب حالات پیدا کرنے کا بھی موجب بن سکتا ہے۔