کشمیر ماحولیاتی اعتبار سے بہت ہی حساس، نازک اور جغرافیائی لینڈ سکیپ کے حوالہ سے انتہائی کمزور تصور کیا جارہاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے کسی بھی تعمیراتی یاتجدیدی امورات کو ہاتھ میں لئے جانے سے پہلے علاقے کے ماحولیاتی توازن اور حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا نہ کہ آنکھیں بند کرکے تعمیراتی یا تجدیدی کام ہاتھ میں لے کر تباہی و بربادی کو دعوت دینے کا جوکھم ہاتھ میں لیا جاتا۔
لیکن کشمیر کے حوالہ سے اب اس حساسیت اور ماحولیاتی پہلو کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے، ۱۹۴۷ء تک جنگلوں اور جنگل علاقوں سے منسلکہ علاقوں تک کو محفوظ رکھنے کی طرف اولین ترجیح دی جاتی تھی بلکہ اس تحفظاتی عمل کومقدم سمجھا جارہاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیرمیںٹنل کے آر پار جنگلاتی خطے کو تحفظ حاصل تھا اور یہی تحفظ جنگلوں کی پیداوار سبز سونے کوبھی حاصل تھا۔ یہ تحفظ نہ صرف پورے خطے کے ماحولیاتی توازن کو ایک تسلسل عطا کرنے کا موجب تصور کیاجاتا تھا بلکہ لوگ بھی کئی اعتبار سے مستفید ہورہے تھے کیونکہ وہ اس اعتقاد پر زائد از سو فیصد یقین کررہے تھے کہ ’’اَن پوشہ تیلہِ یَلہِ وَن پوشہ‘‘۔
لیکن ۱۹۴۷ء کی صبح نمودار ہوتے ہی ہمارے کچھ موقعہ پرست، جاہ پرست،مفاد پرست اور کورپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں، ان سے وابستہ خاندانوں، بیروکریٹوں، فارسٹ لیسیوں کی بدعنوان اور لٹیرانہ ذہنیت کے حامل ٹھیکہ داروں وغیر ہ نے وہ تباہی مچادی جس کی ایک تو نظیرنہیں ملتی دوئم اس تباہی وبربادی اور ماحولیاتی نظام، جو قدرت کی دین تھا، کا خمیازہ فی الوقت کشمیراور اس کااوسط شہری بھگت رہا ہے۔
سڑکوں کی کشادگی، ٹنلوں کی تعمیر، نئی سڑکوںکا جال بچھانے وغیرہ کے حوالہ سے تعمیرات وتجدید ات کا ایک نیا سلسلہ ہاتھ میںلیاگیا ۔ روزمرہ کی بڑھتی ضروریات اور آبادی کے بڑھتے دبائو، نقل وحمل میںہورہے اضافہ اور دوسرے امورات کی عمل آوری کی ضرورت اور اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں۔ لیکن اس حوالہ سے جو روڈ میپ مرتب کئے گئے ہیں اور کاموںکی عمل آوری کے حوالہ سے جو طریقہ کاروضع کرلیاگیا ہے وہ ماحولیاتی توازن کی تباہی وبربادی کاموجب تو بن ہی رہا ہے وہیں روزمرہ معمولات اور زندگیوں کے سفر کے تعلق سے وہ بے حد تکلیف دہ ، نقصان دہ بلکہ سم قاتل ثابت ہورہاہے۔
کشمیرمیں حالیہ چند برسوں کے دوران پیش آمدہ کئی معاملات ایسے ہیں جو اسی ماحولیاتی بگاڑ اور انسانی ہاتھوں سے مسلسل چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ خیال کیاجارہاہے ۔اس حوالہ سے ۲۰۱۴ء کے سیلاب نے کشمیر پر جو قہر برپا کیا اس کی تلخ ترین یادیں آج بھی رونگٹے کھڑا کررہی ہیں۔ سرینگر بائی پاس کی تعمیر نے بہت سارے علاقوں میںپانی کے بہائو اور رسائو کا رُخ موڈ دیا۔ اور اب نئی رنگ روڈ کی تعمیر نہ صرف پانی کے قدرتی بہائو کی راہ میں حائل ہورہا ہے بلکہ زمین زراعت پر بدترین منفی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔
تعمیراتی ایجنسیوں اور ٹھیکوں کی الاٹمنٹ کے ذمہ دار سرکاری محکموں کواس بات کی پروا ہے اور نہ احساس کہ ان کے وضع کردہ منصوبوں کا عوامی زندگی کی معمولات اور پیداوار پر کس نوعیت کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور خطے کے ماحولیات کا توازن برقرار رہتا ہے یا تباہی سے ہم کنار، حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کوایک تو ہرفن مولا تصور کررہے ہیں، دوسری وہ اس بات کو مان کرچلتے ہیں کہ وہ اپنے کاموں اور فیصلوں کے تعلق سے جواب دہ نہیں ہیںاور نہ ہی کوئی حکومتی ایجنسی میںیہ ہمت اور جرأت ہے کہ ان کا مواخذہ کیاجائے اور غلط فیصلوں کا ذمہ دار ٹھہراکر انہیںکسی سزا کا اہل قراردیاجاسکے۔ کیونکہ ایسے کسی بھی ادارے میںتعینات لوگ حکومت کے ہی منتخب اور نامزد ہیں بھلے ہی قوائد وضوابط موجود ہوں اورانہیں بہت سارے آئینی اور قانونی اختیارات بھی حاصل ہوں لیکن ان اداروں کی حیثیت محض رسمی ہے، ہاتھی کے دانت دکھانے اورکھانے کے مترادف ہیں جبکہ عوامی سطح پر یہ باورکرانے کہ وہ کارروائی کررہے ہیں اور متعلقہ افراد اور اداروں کو وجہ بتائو نوٹسیں بھی اجراء کی جارہی ہیں یہ سب کچھ محض دکھاوا ہے۔
انہی کچھ اداروں میںپولیوشن کنٹرول اور قومی سطح پر گرین ٹریبونل خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ کشمیر میں ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے، آبی وسائل اور واٹر باڈیز کو گندگی، کشافت اور تجاوزات سے محفوظ رکھنے اور دوسرے وابستہ حساس نوعیت کے معاملات پر نظر گزر رکھنے کی ذمہ داری ان دونوں کی ہے لیکن اب تک کا مشاہدہ اوران اداروں کا طریقہ کار نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ کئی اعتبار سے تساہلانہ اور معاونتی سمجھا جارہاہے۔
اس تعلق سے سرینگر جموںقومی شارہ کی چارلین میںکشادگی کے پروجیکٹ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ یہ پروجیکٹ گذشتہ کئی سال سے جاری ہے۔شاہراہ کے بعض حصے جو ماحولیات کے اعتبارسے مستحکم، سخت اور لینڈ سکیپ کے تعلق سے مضبوط تھے ان پر کام خوش اسلوبی سے انجام پاچکا ہے لیکن ناشری، رام بن، بانہال کا خطہ تباہی وبربادی کی ایک ایسی داستان رقم کرچکا ہے جوا ب اس خطے کے مکینوں کی ترک سکونت کے ایک فلڈ گیٹ کے کھلنے کا موجب بن رہا ہے۔ شاہراہ کا یہ حصہ جو تقریباً ۶۰؍ کلومیٹر لمبا ہے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی سرپرستی میں متعلقہ ٹھیکہ دار فرموں کے اشتراک سے خطے میں قیامت برپا کرچکاہے۔ باربار این جی ٹی کی توجہ اس تباہی کی جانب دلائی جاتی رہی، مقامی آبادی سراپا احتجا ج ہے لیکن قومی گرین ٹریبونل ٹس سے مس نہیںہوپارہا ہے۔ کیونکہ اس پروجیکٹ کو ماحولیاتی توازن کے تحفظ اور برقرار رکھنے کی عینک سے نہیںدیکھا جارہاہے بلکہ اس اشو کو ایڈمنسٹریٹو نقطہ نگاہ کی عینک سے ٹریٹ کیاجارہاہے۔
اب اطلاع ہے کہ ٹریبونل نے کچھ متعلقہ اداروں کو وجہ بتائو نوٹس جاری کئے ہیں اور ستمبر تک اپنے جوابات جمع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اب جواب کیا آئے گا اور کارروائی کی ہیت آگے چل کر کیا ہوگی، وہ ایک الگ موضوع ہوگا البتہ قومی گرین ٹریبونل ان دوسرے پروجیکٹوں پر خاموش ہے اور بے اعتنائی سے کام لے رہا ہے جو بے حد حساس اور نازک ہیں، ان خطوںمیںسڑکوں کی کشادگی کاکام ہاتھ میں لیاگیا ہے جبکہ کچھ ایک پروجیکٹ بی آر او کی وساطت سے پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں۔ ان علاقوں کے پانی کے سوتوں کے بند ہوجانے اور گلیشئروں کی بقا کے آگے اب کئی سوال ہیں۔
ضلع بڈگام کے کچھ علاقوں سے نئی رنگ روڈ کی تعمیر کے سلسلے میںکئی دیہات متاثر ہورہے ہیں، ان علاقوں سے مٹی کی کھدائی بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے جو کئی خطرات کو دعوت دینے کا موجب بھی بن سکتی ہے۔ زراعت سے وابستہ پیداوار جہاں پہلے ہی متاثر ہوچکی ہے وہیں پانی کا قدرتی بہائو بھی تبدیل ہوتا جارہاہے۔ کشمیر کا واحد دریا، جہلم سرینگر میونسپلٹی اور دیگر بلدیاتی اداروں کی مایوس کن کارکردگی اور مجرمانہ طرزعمل کے نتیجہ میں اب کیارُخ اختیار کرچکا ہے وہ محتاج وضاحت نہیںرہا۔