جمعہ, مئی 9, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

میرواعظم کی دوقدم کی پیش قدمی کی پیشکش

عوام کی خواہشات اور جذبات کی آئینہ دار

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-06-02
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

میر واعظ کشمیراورحریت (م) کے چیئرمین مولوی محمدعمرفاروق نے اپنی مختصر خانہ نظر بندی کے بعد جامع مسجد میں نمازیوں کے ایک بڑے اجتماع سے واعظ وتبلیغ کے بعد باہر منتظر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے تمام تر درپیش مسائل اور معاملات کا آبرومندانہ اور پُرامن حل تلاش کرنے کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ ’’دہلی ایک قدم آگے بڑھے تو ہم دو قدم کی پیش قدمی کے لئے تیار ہیں‘‘۔ میرواعظ نے اور بھی کئی ایک معاملات کا حوالہ دیا ہے اور ان معاملات کے حوالہ سے اپنی گہری تشویشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مانگ کی ہے کہ وہ ان معاملات کو سنجیدگی سے ایڈریس کرکے ماحول میں مثبت تبدیلی لائے۔ لیکن ساتھ ہی اپنے اس موقف اور نظریہ کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ ’’ہم تشدد اور خون خرابہ نہیں چاہتے ۔ ہم نہ جیل چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنی نوجوان نسل کیلئے قبرستان۔ میرا ماننا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہم پیش قدمی کریں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت طاقت پر مبنی اپنی پالیسی ترک کرے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرے‘‘۔
میر واعظ کا یہ بیان کئی اعتبار سے اہم ہے اور بروقت بھی ہے۔ اس میں جہاں نئی دہلی کیلئے ایک واضح پیغام اور مسائل کے حل کی سمت میں پُرامن مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے ان کا حل تلاش کرنے کی اہمیت اور ضرورت کو وقت کا اہم ترین تقاضہ کے طور پیش کیا ہے وہیں میر واعظ کے اس بیان میں کشمیری عوام کی مختلف معاملات کے تعلق سے ان کی خواہشات، احساسات ، جذبات اورانہیں سمجھنے کی ضرورت کو اُجاگر کرکے اپنے اس یبان کو آئینہ کی حیثیت دی ہے۔
مولوی عمر فاروق نے اپنی اس خواہش یا معاملات کے حوالہ سے اپنے مخصوص اپروچ اور فکر کو پہلی بار زبان نہیں دی ہے، ان کا موقف اور اپروچ یہی رہا ہے ۔ وہ پُرامن مذاکرات میںیقین رکھتے ہیں اور خواہش یہی رہی ہے کہ اسی راستے کو اختیار کرکے حال اور مستقبل کے حوالہ سے روڈمیپ کو سر نو ترتیب دیاجانا چاہئے۔ اس تعلق سے یہ کہنا غالباً بے جانہیں ہوگا کہ ان کا یہی نظریہ اور اپروچ حریت کانفرنس کی تقسیم کے بُنیادی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ تصور کیاجارہاہے۔ غیر منقسم حریت کانفرنس دو پھاڑ ہوگئی، ایک حصے پر جماعت کا غلبہ رہا جبکہ دوسرا حصہ اعتدال پسند لیڈر شپ کی قیادت میں منظرعام پر آیا جس کی قیادت میر واعظ کو تفویض کی گئی۔ ایک کشمیر کی تباہی وبربادی کا علمبردار تو دوسرا مسائل اور معاملات کا حل تلاش کرنے کیلئے پُرامن مذاکرات کا وکیل۔ بہرحال وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
لیکن الگ معاملہ ہونے کے باوجود قومی دھارے سے خود کو وابستہ جتلانے والے چند کشمیر نشین سیاسی قبیلے اُس سیاسی قبیلے جس کے بارے میں عوام کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ کشمیرکی اصل تباہی اور خون خرابہ کی ذمہ دار ہی نہیں بلکہ علمبردار بھی رہی ہے کو حکومت کی جانب سے ممنوعہ قراردیئے جانے کے باوجود ابن الوقتی اور حقیر مفادات کی خاطر اپنی صف میں شامل کرانے کیلئے نہ صرف وکالت کررہے ہیں بلکہ حد سے زیادہ اُتاولے بھی نظرآرہے ہیں۔ ایساکر کے درحقیقت اس مخصوص فکر کے حامل سیاسی طبقے کشمیر کو واپس اُس بربادی کی طرف لوٹانا چاہتے ہیں جس کی بُنیاد دہلی نے ۷۲ء میں اپنی ایک اور اندھی سیاسی مصلحت کے پیش نظر اسمبلی کے چار حلقوں کو ان کی گودمیں رکھ کر ڈالی تھی۔
بہرکیف میرواعظ کشمیر فی الوقت روحانی اور مذہبی پیشوا ہی نہیںہے بلکہ عوام کا ایک وسیع حلقہ ان کا اپنا قدآور سیاسی راہنما بھی سمجھتا ہے۔ زائد از چار سال تک انہیں خانہ نظربند رکھ کر ان کی عوامی مقبولیت میںکسی بھی حوالہ سے کوئی کمی نہیں بلکہ زمینی سطح یہی ہے کہ انہیں بار بار بلکہ ہر ہفتے خانہ نظربند رکھ کر ان کی قد آور سیاسی شخصیت کاایک طرح سے اعتراف ہی کیا جارہاہے۔
لیکن اپنی نظربندی کے باوجود وہ جب بھی باہر آتے رہے انہوںنے اپنی کسی تلخی کو زبان نہیں دی بلکہ حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرکے کشمیراور کشمیری عوام کو درپیش مسائل اور معاملات کا پرامن حل تلاش کرنے کی ہی وکالت کی، البتہ یہ شکوہ ضرور کرتے رہے ہیں کہ ’’مجھے نہیں معلوم کہ حکومت کیوں مجھے بغیر کسی معقول وجوہ کے پابند سلاسل کرتی رہتی ہے‘‘۔میرواعظ اگر یہ شکوہ کرتے ہیںتو وہ احتجاج نہیں کرتے بلکہ شکوہ کی حد تک اظہار کو موقعہ دے رہے ہیں۔
کچھ قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے ہیںکہ میرواعظ کے بیان پر دہلی کسی ردعمل کو زبان دے گی یا مسائل اور معاملات کے حل کی سمت میں ’’ایک قدم بڑھائو میں دو قدم کی پیش قدمی کروں گا‘‘ پر مثبت ردعمل ظاہر کرے گی یا سخت گیرانہ رویہ کا راستہ اختیار کرے گی۔ البتہ کشمیر کی سیاسی اُفق کے تناظرمیں موجود مختلف نظریات کے حامل جتنے بھی سیاستدان جلوہ گر ہیں ان میںایک قدآور کوچھوڑ کر باقی سبھی بہت چھوٹے قد کے سیاست دان ہیں جن کی اپنی کوئی عوامی مقبولیت یا سند قبولیت زیاد نہیں لیکن میر واعظ اپنے سیاسی قد کے حوالہ سے ان سے منفرد بھی ہیں اور مختلف بھی!
مولوی عمر فاروق نے عرصہ سے نظربند نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کا بھی حوالہ دیا جبکہ نوجوانوں کی ملازمت کے حوالہ سے پولیس ویری فیکشن اور سفری سہولیات کو قدرے ناممکن بنائے جانے کی پالیسی کو باعث تشویش قراردیا ہے ۔ اُمید ظاہر کی کہ حکومت اس تعلق سے اپنی پالیسی اور اپروچ پر نظرثانی کرے گی اور لچک دار رویہ اختیار کرے گی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کشمیرنشین دوسری کئی جماعتوں اور لیڈروں جبکہ سماجی سطح پر مقتدر شخصیتوں نے بھی حکومت کی اس پالیسی پر اپنی ناپسندیدگی اور فکرمندی کا اظہار کیا ہے ۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق حکومت کی اُس مخصوص پالیسی کے نتیجہ میں پچاس ہزار خاندان منفی طور سے متاثر ہوسکتے ہیں جن خاندانوں سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائیگی۔
ویسے بھی کشمیر فی الوقت سنگین نوعیت کے برین ڈرین کے مسئلہ سے جھوج رہاہے جبکہ بے روزگاری کے محاذ پر تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کی تعداد میںروز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے جس تعداد کے بارے میں مختلف حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کی آبادی ۱۲؍لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے انتہائی منفی اثرات کشمیرکی روز مرہ زندگی اور معاشرتی سطح پر مرتب ہوسکتے ہیں اگر حکومتی اور سیاسی سطح پر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے ایڈریس نہیںکیاگیا۔ یہ ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور خدا نہ کرے کشمیرکو وہ دن دکھائے۔
اس سارے تناظرمیں وزیراعظم کاتازہ ترین بیان کا حوالہ دینا مناسب بھی ہے اور بروقت بھی جس میں انہوںنے کہا ہے کہ ’’کشمیری خراب لوگ نہیں ہیں البتہ انہیں گلے لگائے رکھنے کی ضرورت ہے‘‘ جس سخت گیرانہ پالیسی کو سیاستدانوں اور سماجی سطح پر باعث تشویش قراردیاجارہا ہے وزیراعظم کے اس مخصوص بیان کی روشنی میں اس پر نظرثانی کی سمت میں پہل وزیراعظم کے بیان کی لاج رکھنے کے برابر تصور کی جاسکتی ہے۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

یہ بہکی بہکی باتیں…!

Next Post

ٹی۔ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ہندوستان کھل کر کھیلے: گنگولی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
گانگولی نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا: جے شاہ

ٹی۔ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ہندوستان کھل کر کھیلے: گنگولی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.