پارلیمانی الیکشن کے پانچ مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور اب توجہ اور نگاہیں ۴؍ جون کے نتائج سے قبل کے باقی دو مراحل پر مرکوز ہیں۔ جموںوکشمیر کے حوالہ سے اب ایک پارلیمانی حلقہ باقی رہ گیا ہے جہاں ۲۵؍مئی کو ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ اب تک کے ووٹنگ رجحانات کی بُنیاد پر یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس آخری مرحلہ جو چناب اور پیر پنچال کے آر پار اننت ناگ …راجوری پر مشتمل ہے میںبھی اچھی خاصی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔اس حلقہ میں کاٹنے کی ٹکر ہے، کانٹے کی یہ ٹکر اُس وقت اور شدت اختیار کرگئی جب حکمران جماعت بی جے پی نے اس حلقے سے اپنی پارٹی کے اُمیدوار ظفراقبال منہاس جو پی ڈی پی دورمیں قانون ساز کونسل کے رکن رہے ہیں کی کھل کر حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ کئی پارٹی لیڈروں نے اس حلقے میں منہاس کے حق میں الیکشن مہم بھی چلائی۔ اس حلقے میںنیشنل کانفرنس کے ایک سینئر لیڈر میاں الطاف اور پی ڈی پی کی سرپرست اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی چنائو لڑرہی ہیں۔
بہرحال توقعات اور حالات کے عین مطابق وادی کے دو دیگر پارلیمانی حلقوں سرینگر اور بارہمولہ میں ڈالے گئے ووٹوں کے شرح تناسب میں قدرے اضافہ کا سہرا اپنے اپنے سر باندھنے کیلئے کئی حلقے لنگر لنگوٹے کس کس کر میدان میں اُتر چکے ہیں۔ مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ ووٹوں کایہ شرح تناسب ان کی حکومت کے دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے لئے گئے فیصلے کی عوامی تائید اور حمایت کا آئینہ دار ہے اور لوگوں نے بحیثیت مجموعی حکومت کے دفعہ ۳۷۰؍ کوختم کرنے کے اقدام پر مہر تصدیق ثبت کرلی ہے۔
اس کے برعکس بارہمولہ حلقے کے نیشنل کانفرنس کے اُمیدوار اور سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کا کہنا ہے کہ ووٹوں کے شرح تناسب میں جو اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اس کی ایک وجہ دفعہ ۳۷۰؍ کو ختم کرنے کے مرکزی فیصلے کے خلاف لوگوں کے اندر خفگی، غصہ اور برہمی بھی ہوسکتی ہے۔جبکہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی جو اننت ناگ …راجوری پارلیمانی حلقے سے چنائو لڑ رہی ہے کا بھی کم وبیش عمرعبداللہ ایسا ہی ردعمل ہے۔ لیکن اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس کی طرف سے اس بارے میں جو ردعمل اب تک سامنے آیا ہے وہ ملفوف نوعیت اور انداز کا حامل ہے۔
کون ۳۷۰؍ کے خاتمے کے دفاع میں کیا کچھ کہہ رہا ہے اور کون اس کی واپس بحالی یا اس حوالہ سے جدوجہد کو عوام کی منفرد شناخت اور مخصوص تشخص کے ساتھ منسلک کرکے حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دے رہاہے حکومت کے اعلیٰ ذمہ دار اور ایڈمنسٹریشن جموںوکشمیر میںمابعد کے حالات اور نتائج جو اب تک برآمد ہوئے ہیں کے تعلق سے مطمئن ہیں اور سینہ ٹھونک کر اس کا دفاع بھی کررہے ہیں ۔ البتہ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے نومنتخب صدر اور راجیہ سبھا کے ممبر کپل سبل جس نے سپریم کورٹ میںدائر پٹیشنوں میں سے کچھ ایک پٹیشن کی پیروی کی نے چند روز قبل سابق سراغرساں ادارے کے سربراہ اے ایس دلت اور پاکستان کی سراغرساں ادارے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ مسٹر درانی کی مشترکہ تازہ تصنیف کی رسم رونمائی کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے کئی حلقوں کے دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ ۳۷۰؍ کے ہوتے ہوئے بھی ۹۹؍ فیصد مرکزی قوانین کا اطلاق جموں وکشمیر پر تھا، اس مخصوص دفعہ کو ہٹانے کے دفاع میں حکومت کی طرف سے جو دلیل دی جارہی ہے ۔ اس کی کوئی بُنیاد نہیں البتہ اس دفعہ کو ختم کرنے کے فیصلے کے پیچھے سیاسی محرکات تھے۔ کپل سبل اب تک کئی بار اپنی اس آراء کو زبان دے چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں تھا بلکہ ان کا یہ بھی کہنا رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے کئی زمینی اور تاریخی حقائق کو نظرانداز کردیا ہے۔
قطع نظر اس کے کپل سبل نے جموںوکشمیر کے حوالہ سے ایک اور نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اگر مرکزمیں تیسری بار مودی سرکار اقتدار میںآتی ہے تو جموںوکشمیر میںاسمبلی الیکشن کا ہونا ناممکن ہوسکتا ہے۔اسی طرح کے خدشات کا اظہار ڈاکٹر فاروق بھی کرچکے ہیں ۔ ان کے یہ خدشات کس حدتک صحیح ہیں اور اس کی بُنیاد کیا ہے یہ بات قابل توجہ ہے کہ ابھی چند ہی روز قبل وزیراعظم نریندرمودی اس یقین اور ارادے کاواضح طور سے اظہار کرچکے ہیں کہ ریاستی درجے کی بحالی اور عنقریب اسمبلی انتخابات کا انعقاد اب ترجیح رہے گا۔
جموںوکشمیر میں اسمبلی انتخابات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے سپریم کورٹ نے ستمبر کے آخیر تک ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، لیکن اس کے باوجود الیکشن کے انعقاد یا عدم انعقاد کے تعلق سے خدشات سامنے آرہے ہیں۔ خود الیکشن کمیشن بھی خاموش ہے۔ الیکشن کے حوالہ سے الیکشن کمیشن کا اب تک واحد ردعمل جو سامنے آیا ہے یہ ہے کہ ’جموںوکشمیر میںخلا کو محسوس کیا جارہاہے‘ لیکن اس خلا کے اعتراف کے باوجود الیکشن کمیشن ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے الیکشن کے انعقاد واہتمام کی ضمن میں بے اعتنا،بے عمل اور بے حرکت نظرآرہاہے۔ یہ ایک جمہوری اورآئینی ادارہ ہے جہاں ملک بھر کیلئے یہ اپنے فرائض حاصل منڈیٹ کے مطابق انجام دیتا نظرآرہاہے وہیں جموںوکشمیر کے حوالہ سے اندھی مصلحتیں اس پر حاوی ہیں یا اندھی مصلحتوں کے پیش نظر جموںوکشمیرکے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کو اِن کے آئینی اور جمہوری حقوق سے عمداً محروم رکھنے پر بضد ہے۔
بہرکیف کچھ حلقے اسمبلی کے مجوزہ الیکشن کے تعلق سے کچھ اور ہی رائے رکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا حد سے زیادہ انحصار جموںوکشمیر سے پارلیمانی الیکشن کے نتائج سے بھی جڑ اہوسکتا ہے۔ یہ حلقے یہ محسوس کررہے ہیں کہ اگر تین پارلیمانی حلقوں میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کو تینوں یا کم سے کم دو میں شکست ہوتی ہے تو جو نئے سٹیک ہولڈر حالیہ برسوں میں سیاسی میدان میں اُترے ہیں وہ الیکشن کے لئے دبائو بھی ڈال سکتے ہیں اور الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ان کا اس حوالہ سے نریٹو یہ رہے گا کہ وہ روایتی سیاست کو دفن کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں لہٰذا اب کی بار اور کوئی نہیں صرف اور صرف ہم دعویدار ہیں۔
غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ کشمیرکی سیاسی اُفق کو سرنو ترتیب دینے کی ایک نئی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس ترتیب نو میں اُس ایکو سسٹم کیلئے جگہ بنانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے جس ایکو سسٹم کو ہر قیمت اور ہرحالت میں ختم کرنے کے کل تک عہد باندھے جاتے رہے ہیں۔