واشنگٹن//
امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی مزید ترسیل روکنے کے اعلان کے بعد اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
امریکی صدر کا بیان اسرائیل کے لیے امریکی پالیسی کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ البتہ اس حوالے سے امریکی حکومت کی ایک رپورٹ آج سامنے آنے والی ہے جس میں بتایا جائے گا کہ اسرائیل نے اسلحے کے استعمال کے قوانین کی کس حد تک پاسداری کی ہے یا قوانین کو کس حد تک توڑا ہے۔
دریں اثنا ماہرین اور سابق امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی افواج نے جنگی قوانین اور ہتھیاروں کے استعمال کے لیے مقرر کردہ امریکی معیارات کی خلاف ورزی کی ہے۔
امریکی قانونی نقطہ نظر سے غزہ میں جنگ کے دوران بہت سے قوانین کو نظر انداز کیا گیا تھا مگر اس کے باوجود اسرائیل میں ہتھیاروں کا بہاؤ جاری ہے۔ جوش پال جو اس سے قبل محکمہ خارجہ میں ہتھیاروں کی منتقلی میں کام کر چکے ہیں اور سب سے سینیر امریکی اہلکار ہیں، نے اسی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
دوسریی طرف چارلس بلاہا جنہوں نے 2016 ء اور 2023 ء کے درمیان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے دفتر برائے سلامتی اور انسانی حقوق کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں نے کہا کہ "جب آپ غزہ میں ان گرائی جانے والی عمارتوں کو دیکھیں، جہاں لوگ ان کے نیچے پھنسے ہوئے تھے توامکان ہے کہ اس تباہی میں ہمارا بھی کردار ہےَ”۔
جب کہ کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ امریکہ ہمیشہ سے ہی اس بات میں پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کو کس طرح لاگو کرتا ہے اور انسانی حقوق کے خدشات کو حقیقی سیاست کے ساتھ متوازن کرنے کے لیے کیا کر رہا ہے۔
لیکن غزہ میں اسرائیلی جنگ کے لیے اس کی مسلسل مادی حمایت نے کئی سابق عہدیداروں میں ردِ عمل کو بڑھاوا دیا، جن کا خیال تھا کہ انتظامیہ غیر ملکی اتحادیوں کی فوجی امداد کو محدود کرنے یا اس پر شرائط عائد کرنے کے لیے قوانین پر عمل درآمد میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
کئی حقوق گروپوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کا ریکارڈ مرتب کرنے میں مہینوں صرف کیے۔جن میں سے اکثر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امریکی ساختہ ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ ان میں شہری محلوں، صحت کی سہولیات، صحافیوں اور امدادی کارکنوں پر کھلے عام حملے شامل ہیں۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب محکمہ خارجہ اور دفاع سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آج یا بعد میں کانگریس کو ایک رپورٹ پیش کریں گے جس میں ان الزامات کی ساکھ کا اندازہ لگایا جائے گا کہ امریکی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی میں کیا گیا، یا ایسے طریقوں سے جن سے شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم نہیں کیا گیا۔
یہ غزہ سے کئی ہزار مختلف واقعات کی رپورٹس کے تجزیے کے بعد بھی سامنے آیا ہے۔ جن میں ماہرین کے ایک آزاد پینل نے گذشتہ ماہ (اپریل 2024) شائع کی تھی میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے "بین الاقوامی انسانی قانون کو منظم انداز میں نظر انداز کرتے ہوئے بار بار حملوں میں عام شہریوں اور شہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔