ڈھاکا//
سری لنکا کے بعد بنگلا دیش پر بھی معاشی بحران کا سایہ منڈلانے لگا ہے، جہاں کاروباری خسارے میں لگا تار اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق بنگلا دیش کے بیرون ملک کرنسی ذخیرہ یعنی فوریکس ریزروس میں لگا تار گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔
بین الاقوامی بازار میں کموڈیٹی، ایندھن، مال ڈھلائی اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے کے سبب بنگلا دیش کا خرچ برائے درآمدات بھی بڑھ گیا ہے، جولائی 2021 سے مارچ 2022 کے درمیان بنگلا دیش کے ذریعے سامانوں پر کیے جانے والے خرچ میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔
بنگلا دیشی میڈیا رپورٹس کے مطابق درآمدات پر ہونے والا خرچ بڑھ گیا ہے لیکن اس کے مقابلے میں برآمدات سے ہونے والی آمدنی نہیں بڑھی، جس کی وجہ سے کاروباری گھاٹا لگاتار بڑھتا جا رہا ہے، درآمدات پر زیادہ ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں، اور برآمدات سے غیر ملکی کرنسی حاصل نہیں ہوئی، جس کے سبب فوریکس ریزروز میں کمی آ رہی ہے۔
جو میڈیا رپورٹس سامنے آ رہی ہیں اس میں فوریکس ریزروز میں لگاتار گراوٹ کی نشاندہی کی جا رہی ہے، جتنا فوریکس ریزروز بچا ہے اس کے ذریعے صرف 5 مہینے کے لیے ہی درآمدات کی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے گا، اگر کموڈٹی، کروڈ اور خوردنی اشیا کی قیمتیں بڑھتی رہیں تو پانچ مہینے سے پہلے بھی یہ فنڈ ختم ہو سکتا ہے۔
22-2021 کے جولائی سے مارچ کے درمیان بنگلا دیش میں 22 ارب ڈالر کے صنعتی خام مال کی درآمد ہوئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 54 فی صد زیادہ ہے، خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کے سبب درآمدات بل 87 فی صد بڑھی ہے۔
ڈالر کی قیمتوں میں بینک اور اوپن مارکیٹ میں 8 روپے کے قریب فرق ہے، اس کے سبب لوگ اور غیر قانونی طریقے سے بیرون ملکی کرنسی بھیج رہے ہیں، جس سے مرکزی بینک کے پاس بیرون ملکی کرنسی کی کمی آئی ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کمزور ہوتی جا رہی ہے، مرکزی بینک نے ٹکا اور ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 86.7ٹکا طے کیا ہے لیکن بینک درآمد کنندگان سے 95 ٹکا وصول کر رہے ہیں، اس وجہ سے درآمدی سامان کی قیمتیں بڑھی ہیں اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
بنگلا دیشی حکومت نے ڈالر بحران سے نمٹنے کے لیے لگژری مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگا دی ہے اور سرکاری افسران کے بیرون ملک سفر کو بھی ممنوع قرار دے دیا ہے، ساتھ ہی غیر ضروری منصوبوں پر عارضی طور پر روک لگ سکتی ہے۔