غیر موثر اور عام فہم زبان میں دونمبری ادویات کی کھپت، خرید وفروخت اور استعمال کا رونا ایک مدت سے ہے لیکن نشاندہی ، عوامی حلقوں کی تشویشات اور مطالبات کہ اس وباپر قابو پالیا جائے اور ان دوا ساز کمپنیوں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میںلائی جائے صدا بالصحرا ہی ثابت ہورہی ہے۔
عوامی سطح پر اس بارے میں کوئی مصدقہ اور معتبر جانکاری نہیں تھی چنانچہ مختلف نوعیت کی قیاس آرائیاں اور مفروضوں کاسہارا لیاجاتارہا۔ لیکن الیکٹورل بانڈز پر ڈالے گئے سو پردوں کے ہٹائے جانے کے بعد اب وجوہات سامنے آکر بے نقاب ہورہی ہے۔ اگر چہ ابھی تک ابتدائی نوعیت کی ہی اطلاعات منظرعام پر آسکی ہے لیکن توقع کی جارہی ہے کہ جوں جوں ان الیکٹورل بانڈز کے تعلق سے پردے ہٹائے جاتے رہینگے مزید جانکاری سامنے آتی رہیگی۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان الیکٹورل بانڈز کے مستفید ہونے والوں میں وہ پارٹیاں سرفہرست ہیں جو مرکز اور ریاستوں میں برسرا قتدار ہیں ۔اعداد وشمارات کے مطابق ۹۴۵ کروڑ مالیت کے الیکٹورل بانڈز جو ملک کی ۳۵ ؍ادویہ ساز کمپنیوں نے خرید ے میں سے مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی سب سے زیادہ مستفید رہی۔ اس پارٹی کو تقریباً ۳۹۴؍ کروڑ روپے حاصل ہوئے جبکہ کانگریس کو ان ادویہ ساز کمپنیوں میں سے کچھ کی جانب سے بحیثیت مجموعی ۱۱۵؍ کروڑ ۴۵؍ لاکھ روپے کا فائدہ ہوا۔ بھارت راشٹر سمتی بی جے پی کے بعد دوسرے نمبر پر رہی جسے ۳۲۸؍ کروڑ ۵۰؍ لاکھ روپے ملے، تیلگو ڈیشم پارٹی کو ۵۴؍کروڑ ۵۰؍ لاکھ، سکم کرانت کاری مورچہ کو ۲۵؍ کروڑ ۵۰ لاکھ ، جن سینا پارٹی اور جنتا دل سیکولر کو فی کس ۵کروڑ روپے ، وائی ایس آر کانگریس کو ۴؍کروڑ ،سماجی وادی پارٹی کو ۳؍ کروڑ اور عام آدمی پارٹی کو ایک کروڑ روپے ملے۔
ماہرین نے جو اطلاعات تحقیقات ، تجزیہ اور دیگر معاملات کے حوالہ سے سامنے لائے ہیں وہ یقینا چونکا دینے والے ہیں۔ مثلاً ریڈی لیبارٹری سے وابستہ ایک عہدیدار کے ہاں انکم ٹیکس نے ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۳ء کو چھاپہ مارا ، اس پر کورپشن کے الزامات تھے جس میں ایک وزیر کے رول کا بھی حوالہ سامنے آیا تھا نے ۲۱؍ کروڑ روپے مالیت کے الیکٹورل بانڈز کی خرید اری کی، ان میں سے ۱۰؍ کروڑ کے بانڈز چھاپہ ماری کے محض چند روز بعد ۱۷؍نومبر ۲۰۲۳ء کو بی جے پی کی جھولی میںپڑے، باقی ۱۱؍ کروڑ روپے ہماچل پردیش میں برسراقتدار کانگریس کے کھاتے میں چلے گئے۔
مائیکرو لیب نے ۶؍کروڑ حکمران جماعت کو اکتوبر ۲۰۲۲ء میں بانڈز کی صورت میں ادا کئے ، چار ماہ قبل انکم ٹیکس نے اس کمپنی کی فیکٹری پر چھاپہ مارا تھا۔ ایک اور دو اساز کمپنی جو گجرات نشین ہے جس کا نام ٹورنٹ فارما ہے نے ساڑھے ۷۷؍ کروڑ کے بانڈز کی خریداری کی جس میں سے ۶۱؍ کروڑ کے بانڈز بی جے پی کے کھاتے میں چلے گئے۔ یہ کمپنی سال ۲۰۱۹ء میں بلڈ پریشر کی مخصوص دوائی لوسرٹن جسے امریکہ میں تجزیہ کے بعد غیر معیاری پایا گیا تھا نظروں میں آئی تھی۔ عتاب سے بچنے اور امریکہ کی طرف سے آگے کی تادیبی کارروائی سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے کمپنی نے ساڑھے ۱۲؍ کروڑ روپے مالیت کے بانڈز کی خریداری کی جس میں سے ساڑھے ۱۱؍ کروڑ بی جے پی کے کھاتے میں جمع ہوئے۔ اسی کمپنی کو ۲۰۲۲ء میں بھی امریکہ کی جانب سے سرزنش کی گئی، فرم نے اس بار ۲۵؍ کروڑ کے بانڈز کی خریداری میں سے ۲۲؍ کروڑ بی جے پی کو عطاکئے۔ٹورنٹ نامی اس دوا ساز کمپنی کو سال ۲۰۱۸ء اور ۲۰۲۳ء کے درمیان مہاراشٹر اور گجرات حکومتوں کی جانب سے غیر موثر ادویات سازی کے تعلق سے نوٹسیں اجرا ہوئی تھی۔ ایک نوٹس کا تعلق لوپا مائیڈ نامی غیر موثر دوا کے متعلق تھی جو سکم کے یونٹ میں تیار کی جاتی تھی۔ لیکن سکم کی حکومت نے کمپنی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ کمپنی نے سکم حکومت کی بر سراقتدار پارٹی سکم کرانتی کاری مورچہ کو ۷؍کروڑ مالیت کے بانڈز کا عطیہ اداکیا۔
اسی طرح کئی دوسری ادویہ ساز کمپنیوں جن میں زیڈس، ایم ایس این گروپ، ہیٹرو گروپ ، مائیکر لیب لمیٹڈ وغیرہ شامل ہیں نے بھی کروڑ روپے مالیت کے بانڈز کی خریداری کی اور پھر ان بانڈز کو مختلف برسراقتدار سیاسی جماعتوں کو پیش کئے۔
ادویات ساز کمپنیوں کے اس مخصوص طریقہ کار، جو واضح طور سے کورپشن اور بدعنوان ہے میں متعلقہ ریاستوں میں برسراقتدار حکومتیں براہ راست بلکہ سراپا ملوث ہیں۔ا یسے منظرنامہ میں عوام یہ توقع کررہی ہے کہ غیر موثر اور دونمبری ادویات کی تیاری میں ملوث دوا ساز کمپنیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائیگی تاکہ ادویات کے نام پر جو زہر بیماروں کو کھلایا اور پلا یا جارہاہے اس کی کھپت ختم ہوسکے۔
کروڑ وں روپے مالیت کے الیکٹورل بانڈز کے ذریعے وصولی رقومات کے ہوتے لوگوں کی یہ توقعات زمین بوس ہوچکی ہیں اور ملک کے طول وارض میں جتنے بھی کروڑوں کی تعداد میں مختلف امراض میں مبتلا لوگ ہیں اب انہیں یہ زہر کا پیالہ حلق سے اتارنے کے سوا اور کوئی آپشن باقی نہیں۔ کیونکہ جن پارٹیوں نے ان الیکٹورل بانڈز وصول کئے ہیں وہ کہیں اقتدار میں ہیں تو کہیں اپوزیشن میں ہیں۔ لیکن مجرموں کی صف میں اب ان کی حیثیت برابر کی ہے۔
اس مخصوص منظرنامہ میں اگر چہ جموں وکشمیر نشین کسی سیاسی جماعت کو الیکٹورل بانڈز میں سے کوئی حصہ نہیں ملا ہے لیکن وہ دو اساز کمپنیوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ آواز بلند کرسکتی ہیں البتہ ان میں سے اگر کوئی اقتدارمیں آبھی جاتی ہے تو وہ کسی کمپنی کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ کمپنیاں جو خاص کر غیر موثر دواساز ی میں ملوث ہیں مخصوص فکر کے ڈاکٹروں ،سٹاکسٹوں، دکانداروں اور دوسرے وابستہ گان کو اپنے ایجنٹوں کی وساطت سے ادائیگی کرتی آرہی ہیں جن میں تحفے تحائف، گاڑیوں کی بینک اقساط کی ادائیگی اور بیرون جموں وکشمیر قیام وطعام کے حوالہ سے اخراجات خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔