جموں وکشمیر کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی پہلو سے متوازن ، صحت مند اور مثبت نہیں، اس کے کئی چہرے ہیں جن چہروں کی اکثریت یا ان کی بُنیاد بدترین استحصال پر رکھی گئی ہے۔ سیاستدان سو سال کا بھی ہوجائے تو ہر اعتبار سے اسے ذہنی اور جسمانی طور سے متوازن اور صحت مند تصور کیا جارہا ہے جبکہ مالی مراعات، سکیورٹی حصار اور زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے اسے ہر نوازش ، مراعات اور حقوق کا اہل قراردیاجارہا ہے۔
لیکن یہی سیاستدان چاہئے جوان ہو، بوڑھا ہو یا ضعیف العمر اپنے اقتدار کے نشے میں بدمستی اور دبدبہ کا مثالی مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی انتظامی شعبے میںکام کررہے اہڈہاک ملازمین، کنٹریکچول ملازمین، نیڈ بیسڈ ملازمین، یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والے ملازمین وغیرہ کو کسی بھی حق کا اہل نہیں سمجھتا، چاہئے اُس درجے کے ملازم نے خدمات انجام دیتے ہوئے سات سال یا اس سے زیادہ ہی کیوں نہ گذار ے ہوں۔ اس درجے کے ملازمین کو ایسی کسی ملازمت میں لینے کی اہلیت تعلیمی قابلیت، عمر کی حد، تجربہ وغیرہ کو ترجیح دی جاتی ہے،اس طرح ایسا کوئی ملازم اپنی عمر اور زندگی کے بہترین سال خدمت انجام دیتے ہوئے بسر کرتا ہے لیکن اچانک ایک دن ان سے کہا جاتا ہے کہ بس اب ان کی ضرورت نہیں یا انہیں کہاجاتا ہے کہ ان کی ملازمت کو مستقل نہیں بنایا جاسکتا ہے یا جو لوگ کنٹریکچول یا نیڈ بیسڈ ملازم ہوتے ہیں ان کو فارغ کرکے رخصت کیا جاتا ہے جبکہ ان کی رخصتی کے کچھ ہی دن بعددوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو ان کی جگہ تعینات کیا جاتاہے۔
اس نوعیت کی خدمات انجام دینے والوں کی فہرست بہت لمبی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں ہے۔ یہ بات مشاہدے میں بھی آتی رہی ہے کہ اس درجے کے ملازمین کے ساتھ اسی طرح کا سلوک ہر دورحکومت میںکیا جاتا رہا ہے اور فی الوقت بھی ایسے بہت سارے ملازمین ہیں جنہیں بے روزگار بنایاگیا ہے۔یہ طریقہ کار بدترین استحصال کے زمرے میں شمار کیا جاتاہے۔ سیاست سے اس کا تعلق بے شک منظور نظروں کی تقرریوں سے منسوب کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ مختلف حیثیتوں میں اپنی خدمت انجام دیتے ہیں۔ لیکن جونہی اقتدار کی منتقلی کسی دوسرے کے ہاتھ چلی جاتی ہے تو ہر سو شور شر برپا کیاجاتا ہے کہ پیشرو سرکار نے کنبہ پروری کا راستہ اختیار کرکے چور دروازوں سے بھرتیاں عمل میںلائی ہیں، اس طرح نیا نظم ان کی برخاستگی ٹھیکہ اپنے حق میں مخصوص کرتا ہے اور پھرا سی اپنے مخصوص ٹھیکہ داری کی وساطت سے اپنے منظور نظروں کی بھرتیاں عمل میںلانے کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے۔
نچوڑ یہ کہ ہر دورمیں یہ پڑھا لکھا تعلیم یافتہ طبقہ سیاستدانوں کی استحصالی سیاست کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ کچھ عاجز آکر عدالتوں کا رُخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جبکہ اکثریت یا تو اپنے لئے سلب شدہ حقوق کی بازیابی اور بحالی کیلئے اکثرو بیشتر سڑکوں پر سراپااحتجا ج نظرآتی ہے اور پھر لاء اینڈ آرڈر کی آڑ لے کرانہیں ڈنڈوں کی برسات بھی سہنی پڑرہی ہے۔ یہ روزمرہ کی کہانی کا روپ اب دھارن کرچکا ہے۔
ایسے ہی ایک معاملے پر عدالت نے ایک تاریخ ساز رولنگ دیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ سات سال کی ملازمت مکمل کرنے والا ملازم مستقلی کا حقدار اور اہل ہے۔ عدالت کا یہ حکم نامہ سابق ادوار سے وابستہ سیاست کاروں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور موجودہ ایڈمنسٹریشن کے ذمہ داروں کیلئے نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ اس درجے کے ملازمین کے ساتھ سالہاسال سے چلے آرہے اس استحصالانہ سلوک کے تعلق سے سرزنش بھی ہے۔
اس نوعیت کااستحصال صرف ان ہی مخصوص درجے کے لوگوں تک محدودنہیں بلکہ ان ملازمین کے ساتھ بھی مختلف طریقوں سے استحصال جاری ہے جو مستقل حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان ملازمین کے بارے میں مختصر ترین الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایڈمنسٹریشن کا حد سے زیادہ بوجھ خدمات کی انجام آوری کے تعلق سے انہی کے کاندھوں پر ہے لیکن انہیں نہ وقت پر تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں ، نہ ضرورت مند ملازمین کے جی پی فنڈ سے وقت پر رقوم کی ادائیگی کی جارہی ہے،ا س تعلق سے گذشتہ دو برسوں سے صورتحال استحصال سے کہیںزیادہ انکار اور محرومی سے عبارت طریقہ کار اور ادائیگی کے تعلق سے اختراعی سسٹم کو وجود بخشنے اور اس پر سختی سے عملی جامہ پہنانے سے ہے۔
ہم جمہوری نظام میںرہ رہے ہیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے یہ نظام پروان چڑھتا رہا جبکہ ساتھ ہی یہ لوگوں کے طرز زندگی اور مزاج کا بھی ان مٹ حصہ بن چکا ہے۔ اس نظام کے تحت مسلسل دعویٰ اور نظریہ بھی یہی رہا ہے کہ ہمارا ملکی نظام فلاحی سٹیٹ کی خطوط پر آزادی کے بعد سے ہی استوار کیاجاتارہا ہے ۔ فلاحی سٹیٹ کے ہوتے اُمیدوں اور توقعات کے نئے نئے چراغ زندگی کے رواں دواں سفر کے ساتھ ساتھ روشن ہوتے رہتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ خطوں باالخصوص جموںوکشمیر میںجس انتظامی ڈھانچہ کو گذری دہائیوں کے دوران پروان چڑھایا جاتارہا اُس ڈھانچہ کو سیاستدانوں اور کلیدی عہدوں پر فائز بیروکریٹوں نے اپنے لئے راحت بخش تو بنالیا ہے لیکن اس ڈھانچہ میں دوسروں کیلئے استحصال، امتیازی سلوک، عدم رواداری اور کچھ دوسری بدعات کا مجمعہ بھی اکٹھا کرلیا۔
وسیع ترمفادات کا بھی تقاضہ ہے اور سسٹم پر لوگوں کے اعتماد اور بھروسہ کو برقرار رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ سسٹم میں سرائیت کرائی جاتی رہی محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر برائیوں، بدعات، خامیوں اور استحصالانہ طرزعمل کا خاتمہ یقینی بنایاجائے تاکہ ملک کو بحیثیت مجموعی مکمل فلاحی سٹیٹ کے راستے پر گامزن کیا جاسکے۔