جموںوکشمیر باالخصوص کشمیرکا سیاسی منظرنامہ بڑی تیز ی سے بدل رہاہے۔ کشمیر کی سیاست کے حوالہ سے مضبوط اور ناقابل تسخیر سیاسی قلعوں کے نیچے سے زمین ہلنے لگی ہے، وہ ابھی اگر چہ اپنے پرانے نریٹو پر ہی قائم ہیں البتہ کشمیرکے تعلق سے جو نیا نریٹو حالیہ کچھ برسوں کے دوران سامنے آرہا ہے اور لوگوں کی خاصی آبادی کی توجہ اور غورفکر کا محور بنتا جارہاہے وہ بھی پرانی سیاسی پارٹیوں کے نریٹوز کے لئے ایک زبردست چیلنج بن رہاہے۔
البتہ کشمیر کے حوالہ سے تاریخ ایک نئی کیجولٹی بنتی جارہی ہے۔ نوجوان نسل کی ترجیحات وہ نہیں جو ان کے بڑوں کی تھی اور نہ ہی وہ کشمیر کی تاریخ کے حوالہ سے مختلف کرداروں کو آج کی تاریخ میں کسی اہمیت کا حامل سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ نوجوان پود کا ایک حصہ ان تاریخی کرداروں کی سیاست، ترجیحات، ان کے اپنے نظریات کے تناظرمیں فیصلہ سازی کوہی چیلنج کررہے ہیں اور ان کو غلط بھی قرار دے رہے ہیں اور تعبیر کی غلطی سے بھی موسوم کررہے ہیں۔ بہرحال ان تاریخی کرداروں میںسے آج کی تاریخ میں کوئی حیات ہوتا تو اپنی آنکھوں کے سامنے اس نوجوان نسل کی سوچ باالخصوص ان کرداروں نے اپنی جدوجہد اور مساعی جمیلہ کے ساتھ عوام کو غلامی کے چنگل، جبروقہر،بے گار، ۷x۲۴ کی عرق ریزی کے باوجود ہر دم کی فاقہ کشی ، ماردھاڑ، پکڑ دھکڑ، اثاثوں اور جائیدادوں سے بے دخلی وغیرہ سے نجات دلانے میں جو ناقابل فراموش رول اداکیا تھا کو دیکھ کر غالباً یہی کہنے پر مجبور ہوجاتے کہ
’نہ خُدا ہی ملا نہ وصال صنم‘
بہرحال زمانہ کروٹ لیتا رہا ہے ، کشمیر کے تعلق سے بھی زمانہ کروٹ لے رہا ہے۔ پرانے نریٹوز کی جگہ نئے سیاسی، معاشی اور زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے نئے نرٹیوز سامنے آکر اپنے لئے جگہ بنارہے ہیں۔یہ تبدیلی منفی یا غلط بھی نہیں، وقت کا ہی ایک تقاضہ ہے، لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے ماضی کو نظرانداز کرے، قوم کے لئے قربانی دینے اور ناقابل فراموش کرداراداکرنے والوں ، جنہیں اس مخصوص دور کے لوگ ، جو اتفاق سے آج کی نسل کے دادا، پردادااور اسلاف ہیں،اپنے لئے مسیحا قرار دیتے تھے کی تقریباً کردارکشی اور ان کے فیصلوں اور کردار کو غلط قرار دے کر پیش کرنے کی کوشش کرنے والوں کی عقل ودانش پر ماتم ہی کیاجاسکتا ہے۔
یہ بھی کسی المیہ سے کم نہیں کہ جنہوںنے اس قوم کی بربادی اور تباہی میں اہم کرداراداکیا، یہ کردار ادا کرنے کیلئے سرحد کے اندر اور سرحدوں کے پارکے اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرکے اپنے لئے ملازمانہ رول اور کردار اداکرتے رہے ان کا محاسبہ کرنے یا ان کے وقتی فیصلوں کی جوازیت ،اہمیت یا افادیت کے حوالہ سے ایک معمولی سوال کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جارہی ہے۔
اگر تاریخ کے تناظرمیں اُس مخصوص دور کے سیاستدانوں نے قوم کو غلامی کے چنگل سے چھٹکارا دلانے کیلئے تحریک برپا کی، اُس تحریک کو جلا بخشنے کیلئے قوم بھی آگے بڑھتی اور قربانیوں کی ایک لازوال تاریخ رقم کی،یہ انہی قربانیوں کا ثمرہ ہے کہ کشمیر صدیوں کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے میں کامیاب ہواجن غلامی کی زنجیروں کو ہندوستان کے مغل اعظم اور دین الٰہی کے خالق اکبر بادشاہ نے جعلسازی ، دھوکے اور فریب کاری کا جال بچھا کر کشمیر کے حکمران یوسف شاہ چک کو قید کرکے کشمیرپر قبضہ کیا تھا جو قبضہ آنے والی صدیوں کے دوران صرف ہاتھ بدلتا رہا لیکن کشمیر اور کشمیری عوام غلام در غلامی کے شکنجے میں ہی چلتے گئے۔
کشمیر کی اس آزادی کو پھر سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کیلئے کچھ ابن الوقت نیم سیاستدانوں کی ایک نئی فصل سامنے آئی، جذباتی نعرے بلند کئے، عوام کو گمراہی کے دلدل میں دھکیلا اور کشمیر ایک بار پھر آنیوالی کئی دہائیوں تک لہو رنگ ہوتا رہا۔ آج جولوگ سوال کررہے ہیں کیا تباہی وبربادی کے ان علمبرداروں سے کھبی یہ سوال کیا کہ وہ کیوں اپنے حقیر سیاسی مفادات اور ایجنڈا کو اپنی پسند کے رنگ میں دیکھنے کیلئے کشمیرکے طول وارض میں قبرستانوں کوآباد کرتے رہے؟
بے شک ہر شخص اور ہر شہری کو اپنے خیالات، عقیدوں ، نظریات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ اُس کے اس حق کی ضمانت ملکی آئین میں بھی دی گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آزادی اظہار رائے کے اس حق کو کیا سٹیٹ اورافراد کی تباہی وبربادی ، سالمیت اور فرقہ وارانہ یکجہتی کو تباہ کرنے اور کسی دوسرے کاایجنڈا کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا جائز ہے؟
اپنی آنکھوں کے سامنے سرزمین کشمیر کو قدم قدم پر لہو رنگ دیکھنے کے باوجود آج بھی کچھ لوگ اپنی سیاسی خو اور مفادات کے حوالہ سے اپنی وضع میں تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات کے حوالہ سے ایک ٹیویٹ ، نظر نواز ہواجس میں مرثیہ کے انداز میں اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی کہ عمران خان اور اُس کی پارٹی سے دھاندلی کے ذریعے فتح چھین لی گئی، بے شک ۸۷ء میں کشمیر میں ہوئے الیکشن فراڈ اور دھاندلی سے عبارت رہے، بالکل اُسی طرح یا اُسی انداز میں جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈائون کیاگیا تھا اور اب اسی طرز کا کریک ڈائون عمران کی پارٹی کاکیاگیا، پوچھا جاسکتا ہے کہ اس مرثیہ نما موازنہ کا کونسا جواز ہے؟
درحقیقت دیوار کو چھید کرکے اندر جھانکنے کی کوشش کی جائے کہ اس کے اندر کیا ہے جواب یہی ہاتھ آئے گا کہ تباہی وبربادی کے علمبردار وں کی معاونت اور سرپرستی کرنے یا حاصل کرنے والے آج بھی خاموش نہیں بیٹھے ہیں۔ وہ کوئی نہ کوئی روپ اختیار کرکے فساد فی الارض کی نئی بُنیاد یں تلاش کرنے کی ٹوہ میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔