اپوزیشن پرمشتمل انڈیا اتحاد جس آندھی اور طوفان کی مانند تشکیل پاتارہا اُسی آندھی اور طوفان کی رفتار کے ساتھ زمین بوس ہوتا جارہاہے۔ بہار ، مہاراشٹر ،اُتر پردیش، پنجاب اور کچھ دوسرے علاقوں میں اپوزیشن اتحاد میں شامل اکائیاں نہ صرف علیحدگی اختیار کرتی جارہی ہیں بلکہ اتحاد میں شامل سب سے بڑی پارٹی کانگریس کا اپنا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے۔
مہاراشٹر میں کانگریس کے منتخبہ ارکان بشمول ایک سابق وزیراعلیٰ کانگریس کو الوداع کہکر حکمران جماعت کا حصہ بن گیا۔ جبکہ اُتر پردیش میںسماج وادی پارٹی کے ساتھ علاقائی اتحاد میں شامل مرحوم چودھری چرن سنگھ، جو وزیراعظم کے منصب پر فائزرہ چکے ہیں کو بعد از مرگ ملک کے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن سے نواز نے کے فوری ردعمل میں ان کے خاندانی جانشین سماج وادی پارٹی اور اپوزیشن اتحاد کی صفوں سے باہر آکرحکمران جماعت میںشامل ہوگئے ہیں۔
پارٹیوں سے لیڈروں اور کارکنوں کے اخراج کا یہ تسلسل فی الحال جاری ہے ۔ سیاسی چوغے تبدیل کرنے کا یہ عمل عین اس وقت شروع ہوا ہے جب پارلیمانی انتخاب کے محض چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ سنجیدہ فکر حلقے چوغوں کی اس ادلابدلی کو سیاسی مفاد پرستی سے جوڑ رہے ہیں لیکن کئی ایک حلقوں میںاس طرح کے سیاسی منظرناموں کو ملکی سیاست ، جمہوریت اور عوام کی طرف سے تفویض منڈیٹ اور اعتماد کیلئے چھرا گھونپنے کے مترادف قراردیاجارہاہے جبکہ عوامی نمائندگی سے متعلق ایکٹ کی اس مخصوص کہانی پر خاموشی یاکمزوریوں کو باعث تشویش سمجھا جارہاہے۔
بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسے معاملات سے نمٹنے کیلئے عوامی نمائندگان سے متعلق مروجہ ایکٹ میںجو خامیاں اور بے بسیاں موجود ہیں انہیں کیسے دور کیاجاسکتا ہے تاکہ عوام جس شخص کے حق میں اپنا منڈیٹ تھمادیتے ہیں اُس منڈیٹ کو سبوتاژ کرنے یا عوام کی اس امانت کی خیانت کرنے کی سزا کیا ہونی چاہئے، کیا ایسا کرنے کی صورت میں ایسے رکن کو اپنی نشست سے مستعفی ہوجانا چاہئے اور اپنے تبدیل شدہ نظریہ کے حق میں پھر سے عوام کے پاس جاکر اپنے لئے نیا منڈیٹ حاصل کرنا چاہئے۔
فی الوقت اپوزیشن اتحاد کا خیمہ جس زمین پر کھڑا ہے اس کے نیچے سے زمین ہل بھی رہی ہے اور کھسک بھی رہی ہے۔ پنجاب میں اپوزیشن کا نگریس اور حکمران عاپ نے جس آپسی اتحاد کا اعلان کیا تھا اُس اتحاد سے عاپ کے سربراہ اروند کیجریوال نے قدم پیچھے ہٹالئے ہیں اور اپنے دم پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ مغربی بنگال کا منظرنامہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ اگر چہ ممتا بنرجی اور عاپ کے سربراہ نے اپوزیشن اتحاد کے کنوینر کے عہدے کیلئے کانگریس کے صدر کو نامزد کرکے عہدے پرانہیں فائز کرنے میںاہم کرداراداکیا ہے لیکن ممتا بینرجی کانگریس کا ہاتھ اس لئے تھامنے کیلئے آمادہ نہیں ہورہی ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ کانگریس کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ اتحاد میں شریک ہے جس کمیونسٹ اتحاد نے مغربی بنگال میں بقول ترنمول کانگریس کے وہ سب کچھ کیا جس کا حوالہ کسی ڈکشنری سے بھی نہیں ملتا۔
اپوزیشن اتحاد کے تعلق سے بکھرائو اور یہ منتشرانہ منظرنامہ اتنی تیز رفتاری کے ساتھ آخر کیوں اور کن وجوہات کے پیش نظراُبھر کر سامنے آرہاہے یہ غور طلب ہے۔ کچھ سیاسی ناقدین کا ماننا ہے کہ اس مخصوص بکھرائو کی ایک اہم وجہ کانگریس قیادت کی ہٹ دھرمی اور نظریہ بالادستی ہے۔ کمزور بیساکھیوں کے سہارے کے باوجود اس قیادت کو اپنی اس کمزوری کا احساس نہیں ہورہاہے۔ وہ ہرحالت میںخود کو بڑے بھائی کے کردارمیںدیکھنا چاہتی ہے جبکہ علاقائی سطح پر علاقائی جماعتیں اپنے مخصوص اور منفرد تشخص سے کانگریس کے حق میں دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔
کانگریس کایہی بڑے بھائی کا رویہ دوسری پارٹیوں کو نہ صرف کانگریس سے دور کرتی جارہی ہے بلکہ اتحاد سے بھی علیحدگی کا موجب بنتا جارہاہے ۔ جموںوکشمیر سے بھی لگ بھگ یہی منظرنامہ اُبھرتا نظرآرہاہے۔ نیشنل کانفرنس جو اتحاد کی ایک اکائی ہے کم سے کم ان تین پارلیمانی حلقوں سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں جو فی الوقت اس کے پاس ہے۔ کانگریس اور پی ڈی پی کا مطالبہ ہے کہ نیشنل کانفرنس اننت ناگ پارلیمانی حلقہ سے ان کے حق میں دستبردار ہوجائے۔
یہی وہ حلقہ ہے جس پر حکمران جماعت بی جے پی اپنی تمام تر توجہ ، توانائی اور سیاسی اثرورسوخ کا بہتراستعمال کرکے لوگوں کو اپنے حق میںہموار کرتی جارہی ہے۔ حلقے میں حکمران جماعت نے بڑے پیمانے پر سیاسی سرگرمیاں ہاتھ میں لی ہیں، مقصد واضح ہے کہ جہاں جموںکی دو نشستوں کو بدستور اپنے حق میں حاصل کرلیاجائے وہیں کشمیر سے کم سے کم یہ ایک حلقہ اپنے کھاتے میں ڈالنے میںکامیاب ہوجائے۔
جموںوکشمیرکے تعلق سے اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو کہاجاسکتا ہے کہ وادی کے تینوں پارلیمانی حلقوں میں مقابلہ آرائی کم وبیش سرگرم عمل ہر جماعت کے درمیان ہونے جارہاہے۔اُس صورت میں جہاں ووٹ تقسیم درتقسیم ہوگا وہیں کوئی بھی مقدر کا سکندر بن کر اُبھر سکتا ہے۔
نچوڑ یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد انڈیا کی صف میں تیزی سے جو دراڑیں بڑتی جارہی ہیں یا اس اتحاد میں جو شگافیں پیدا کی جارہی ہیں اس کا براہ راست فائدہ حکمران جماعت بی جے پی کو ہی ہونے جارہا ہے جس کی لیڈر شپ جہاں دفعہ ۳۷۰؍ کی مناسبت سے اپنے حق میں۳۷۰؍ حلقوں میں جبکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ۴؍سو حلقوں سے کامیابی سمیٹنے کیلئے پُر اُمید ہے۔