کرائم چاہئے کسی بھی شکل وصورت میں ہویا کسی بھی نوعیت کا ہو، جس کسی سماج میں ان کا پالن ہورہا ہو وہ سماج اندر ہی اندر سے آہستہ آہستہ کھوکھلا ہوتا جارہاہے، اُس سماج کی کوئی اخلاقیات باقی نہیں رہتی، ہر چپہ گندگی غلاظت اور عفونیت کی آماجگاہ میں تبدیل ہوجاتا ہے ، اصول رشتوں اور تعلقات کا تقدس اور حرمت پائوں تلے روندھی جاتی ہے، جبکہ جرائم پیشہ افرادہوں یا گروہ خو دکو کسی ضابطہ، احتساب اور ڈسپلن کا پابندنہیں سمجھ رہا ہے۔
کشمیرکی سرزمین اب کسی حد تک یہی منظرپیش کررہی ہے۔ صوفیوں، سنتوں، ریشیوں، اولیائے کرام ، ولیوں اور عالموں کی اس سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے نعمتوں ، نوازشوںاور مراعات کی بہتات سے سرفراز کیاتھا لیکن لالچ اور ہوس گیری نے اندھا بنا کرخود اپنے ہاتھوں نہ صرف اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار کو پائو ں تلے روندھنے میں کوئی کسر اب باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں بلکہ بحیثیت مجموعی وہ کشمیر، کشمیر نہیں رہا جس پر اپنے تو کیا غیروں کو بھی فخر ہوا کرتا تھا۔
کیا یہ مادہ پرستی کی جانب اندھی دوڑ میں سبقت لینے کا نتیجہ ہے ، اخلاقی گراوٹ اور انحطاط کی کوئی علامت ہے یا بدلتے حالات کا شاخسانہ ، کچھ نہ کچھ تو ہے لیکن جو کچھ بھی ہے وہ اسی طرف اشارہ کررہا ہے کہ کشمیرمیں مختلف نوعیت کے جرائم بڑی سبک رفتاری کے ساتھ پنپتے جارہے ہیں، اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کا دامن اپنے روایتی معیارات سے گر کر غلاظت،عفونیت اور کوڈا کرکٹ کے انباروں کو ابھارنے کا موجب بن رہے ہیں۔ کوئی کسی کی سنتا ہے اور نہ کان دھرنے کو تیار ہے۔
’میں ‘ ’ہم‘ پر حاوی اور غلطبہ پاتا جارہاہے اور یہی اصل فساد کی جڑ ہے کیونکہ آپسی رواداری کی جو روایتیں تھیں اور جن پر کشمیر کو فخر ہواکرتا تھا وہ رواداری حسد، تعصب، نفرت، ضد، نظریاتی بالادستی کی نذر ہوتی جارہی ہے۔ بحیثیت مجموعی معاشرے کے حوالہ سے اس منظرنامے کے بارے میں کچھ قیاسات کا سہارا لے کر معاشرے پر مرتب ہورہے منفی اثرات کا تجزیہ کریں یہ روح فرسا اور تکلیف دہ سچائی سامنے آرہی ہے کہ اب چار دیواری کے اندر تک ان بدعات اور سیاہ کاریوں نے اپنے بال وپر پھیلانے میںکامیابی حاصل کرلی ہے۔ اب گھروں کاسکون تک خاتمہ باالخیر کی دہلیز عبور کرتا نظرآرہاہے۔ نشے کی لت میں مبتلا بیٹا ماں کی حرمت تک اب پامال کرنے میںکوئی عار یا شرمندگی محسوس نہیں کررہا ہے۔
کشمیر کی سرزمین کو اس تاریک دلدل میں دھکیلنے کا ذمہ دار تو کوئی نہ کوئی ہے؟ اس کی نشاندہی کون کرے اور نشاندہی کیلئے کون ساپیمانہ ہاتھ میں رکھے! یہ سوال وزنی ہے جبکہ صحیح صحیح جواب تلاش کرنے اور کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے کیلئے گذری چند دہائیوں کے دوران پیش آمدہ مختلف نوعیت کے معاملات او رواقعات کا ان کی تاریخ کے حوالوں سے گہرائی سے تجزیہ کرنا پڑے گا، تب کہیں جاکر کوئی نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے۔
فوری طور سے کچھ انڈیکٹر اس جانب اشارہ تو کررہے ہیں لیکن وہ حتمی نہیں بلکہ قیاسات پر مبنی ہیں۔ ایک قیاس یہ ہے کہ کشمیرکا یہ منظرنامہ بندوق آنے سے پہلے نہیں تھا بلکہ بندوق کی کشمیر آمد کے بعد سے اُبھرناشروع ہوا۔ ابتداء میں بندوق نے گھرمیں گھس کر چاردیواری کا تقدس پامال کردیا پھر من پسند سالن ؍کھانا اپنے سامنے بچھے دسترخوان پر نہ پاکر ہانڈی کو بندوق کی گولی کا نشانہ بنایا۔ بے چاری ماں تو اُسی روز سہم کر رہ گئی تھی اوراب دھیرے دھیرے اسی بندوق نے اپنے کچھ آکار تبدیل کرکے دماغی توازن کو بگاڑ کر اسے نشے کا عادی بنادیا۔
اسی بندوق نے سماج کے سارے تانا بانوں کو تہہ وبالا کرکے رکھدیا، زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے مافیاز کی ایک نہ ختم ہورہی فصل کو جنم دیا،اراضیوں پر قبضے، ناجائز تجاوزات اورتعمیرات کا نہ ختم ہونے والا تسلسل، دھوکہ دہی ، جعلسازی، فریب کاری ، لٹیرانہ طرزعمل، بے روزگاروں کو نوکریوں کا جھانسہ دے کر ان سے رقومات ہڑپنے ، عصمت ، اغوا اور تاوان کے راستے اختیار کرنے ایسی مجرمانہ خصلتوں کو حالیہ برسوں میں فروغ ملا، جبکہ کچھ نوعیت کی مجرمانہ سرگرمیوں میںملوث کچھ مقامیوں نے بیرون کشمیر سے آنے والے مجرمانہ ذہنیت کے حامل کچھ مجرموں کو پناہ دے کر اپنی سرگرمیوں کا بھی شریک بنایا۔
بندوق کشمیرکی تباہی وبربادی کا اگر بُنیادی کارن تصور کیاجارہاہے تو اب منشیات کی کھپت اور اس کی لت میں آنے والے لاکھوں افراد معاشرے کی مزید تبادہی وبربادی کا کارن بن رہے ہیں۔ بندوق کو خاموش یا ختم کرنے کی جنگ اپنے آخری مراحل میں داخل ہورہی تھی کہ کشمیر کو منشیات کے حوالہ سے ایک نیا مگر سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ بندوق کی نشاندہی تو آسانی سے ہورہی تھی لیکن منشیات کی لت میں کون اور کب مبتلا ہوگا اس بارے میں فوری طور سے پتہ نہیں چلتا۔ پتہ تو تب چلتا ہے کہ جب پانی سر کے اُوپر سے بہہ چکا ہوتا ہے۔
اس چیلنج کے تعلق سے سماج بحیثیت مجموعی ابھی زیادہ فعال اور متحرک نہیں، اس کی کچھ مخصوص بشمول سماجی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ قریب کے لوگ چھپا کے بھی رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن جو کچھ بھی ہے بہت بُرا ہے اورا س برے اور تباہی وبربادی سے عبارت چیلنج سے نمٹنے کیلئے معاشرے کیلئے لازم ہے کہ وہ ہرسطح پر خودکو متحرک اور فعال بنائیں اوران لوگوں کی نشاندہی کرنے کیلئے آگے آجائیںجو منشیات کی سمگلنگ ،خریدوفروخت اور استعمال میں ملوث ہیں۔ ملوثین کی جائیدادیں اور املاک ضبط کرکے ایڈمنسٹریشن نے جو پہل کی ہے اس کا خیر مقدم ہی کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ممکن تعاون ناگزیر بن چکا ہے۔