بہار کے نتیش کمار کی ایک اور یوٹرن نے اپوزیشن اتحاد کے حال اور مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے، نتیش کمار نے ایسا کیوں کیا، اگر چہ اپوزیشن اتحاد کی تشکیل میں ان کا ذاتی حیثیت میں نمایاں رول رہا ہے لیکن اچانک ایسا کیا ہوا کہ وہ اپوزیشن اتحاد کو داغ مفارقت دینے اور حکمران اتحاد این ڈی اے کے چرنوں میں پھر سے سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہوا، اس بارے میں ملک کے کچھ حساس سیاسی حلقے جہاں اس یوٹرن کو مخصوص نظریہ کی حامل سیاسی انجینئرنگ کا کرشمہ تصور کررہے ہیں وہیں نتیش کمار کی ہر حالت میں اقتدار پر ستی اور سیاسی ابن الوقتی کی ایک بدترین بلکہ جیتی جاگتی تصویر بھی قرار دیاجارہا ہے۔
کمار کی پارٹی کی جانب سے اس یوٹرن کے دفاع میں جو دلیلیں اور جواز پیش کئے جارہے ہیں وہ لنگڑے ، کمزور، تصوراتی جبکہ ان میں زیادہ تر نتیش کی ہوس اقتدار کی بو دو دور سے محسوس کی جارہی ہے ۔ تاہم اپوزیشن اتحاد کے حال او رمستقبل پر نتیش کمار کی یوٹرن یادوسرے الفاظ میں اتحاد سے علیحدگی کے نتیجہ میں کس نوعیت کے اثرات قومی اور علاقائی سطح پر مرتب ہوں گے یا ہوسکتے ہیں ان کے بارے میں فی الحال قطعیت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے البتہ کچھ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس یوٹرن کا براہ راست فائدہ حکمران این ڈی اے کو آنیو الے پارلیمانی الیکشن میںہوسکتا ہے البتہ کچھ ایک حلقے اپوزیشن اتحاد کے خیمے میں اس بحران کو پیدا کرنے میں بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی اور دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال کا ہاتھ اس حوالہ سے قراردیاجارہاہے کہ انہوںنے کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے کو اتحاد کا کنونیر نامزد کیا جس عہدہ کو حاصل کرنے کی چاہت نتیش کمار اپنے دل میں پال رہے تھے۔
بہرحال نتیش کے فیصلے کے نتیجہ میں جموں وکشمیر میںبھی اتحاد کی اکائیوں کی جانب سے ردعمل سامنے آنا شروع ہوا۔ ہرسیاسی پارٹی اپنے طور سے الیکشن میںاپنے اُمیدوار کھڑا کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس وادی کی تینوں نشستوں پر اپنی سیاسی اجارہ داری برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اپوزیشن اتحاد کی کسی اکائی… کانگریس اور پی ڈی پی کے لئے وادی میںکسی ایک بھی حلقے سے دستبرداری پر آمادہ نہیں۔کانگریس اور پی ڈی پی دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں اننت ناگ حلقے میں عوامی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ حکمران جماعت بی جے پی نے اسی مخصوص حلقے میں اپنی سرگرمیوں کاآغاز بھی کرلیا ہے اور اس حلقے سے کامیابی یقینی بنانے کی سمت میں مختلف اپروچ کو بروئے کار لایاجارہاہے۔
وادی کی ان تینوں حلقوں میںزبردست معرکہ کی توقع کی جارہی ہے کیونکہ اتحا د سے باہر کی دو اور جماعتیں اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس بھی لنگر لنگوٹے کس کر منتظر ہیں ۔ حتمی جیت کس کی ہوگی اس کا پتہ تو آخری ووٹ کی گنتی کے بعد ہی چلے گا لیکن جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ آرائی کو بعید از بحث قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
جموںنشین کوئی پارٹی اپوزیشن اتحاد کا حصہ نہیں البتہ کانگریس کو جموںمیں بی جے پی سے براہ راست مقابلہ ہوگا البتہ کچھ حلقوں میں چودھری لال سنگھ ان دونوں کیلئے کسی حد تک اثرا نداز ہوسکتے ہیں جبکہ چناب خطے سے غلام نبی آزاد کی پارٹی ان سبھی پارٹیوں کیلئے چنوتی بن سکتی ہے۔ لداخ کی ایک واحدنشست کیلئے کانگریس ، بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے درمیان زبردست زورآزمائی ہوگی جو فی الوقت بی جے پی کے پاس ہے۔
لیکن مختلف نوعیت کے مفروضوں اور قیاس آرائیوں کے درمیان اپوزیشن اتحاد کے اندر ناچاکی او ررسہ کشی کیلئے کانگریس کی ہٹ دھرمی ، نظریہ بالادستی اور میں نہ مانوں کو قراردیاجارہاہے۔ اگر چہ اترپردیش میں اب اس رستہ کشی اور ہٹ دھرمی پر قابو پالیاگیا ہے اور کانگریس اور اکلیش یادو کی پارٹی سماج وادی کے درمیان کچھ حلقو ں میں آپسی گٹھ بندھن کو آخری شکل دی گئی ہے جبکہ باقی حلقوں کے تعلق سے آپسی مذاکرات جاری ہیں لیکن اس مخصوص ریاست میں بہوجن سماج وادی کی سرپرست مایاوتی کسی اتحاد میں شامل ہونے پر آمادہ نظرنہیںآرہی ہے بلکہ سیاسی حلقوں کا کہناہے کہ اُس کا جھکائو حکمران اتحاد این ڈی اے کی طرف ہی ہے۔
لے دے کے اپوزیشن کے پاس جنوبی ہندوستان کے کچھ حلقے رہ جاتے ہیں جہاں غیر بی جے پی حکومتیں قائم ہیں۔ ڈی ایم کے ماضی میںکانگریس کی اتحادی رہی ہے لیکن حالیہ ایام میں کچھ نزاعی معاملات کے حوالہ سے ان دونوں کے درمیان کچھ اختلافات رونما ہوتے نظرآرہے ہیں جبکہ آندھرا پردیش اور اڈیسہ پہلے سے ہی بی جے پی کی اتحاد میںشامل ہے۔
اس سارے تناظرمیں یہی محسوس ہورہاہے کہ بی جے پی کی قیادت میں اتحاد کے لئے آنے والے انتخابات میںکوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں ہے اور حکمرا ن اتحاد بہ آسانی اگر بھاری اکثریت نہیں تو کم سے کم دو تہائی اکثریت حاصل کرکے دوبارہ اقتدارمیں آجائیگا۔ حکمران اتحاد کی ممکنہ کامیابی کی راہ میں کئی دوسرے فیکٹر بھی اہمیت اور توجہ کا حامل سمجھے جارہے ہیں۔ جن میں حکومتی سطح پر ترقیاتی منظرنامہ میں مثبت بدلائو، رویزرویشن پالیسی میں حالیہ ترمیمات اور نئی ذاتوں کیلئے ریزرویشن میں حصہ داری، رام مندر کی تکمیل، شرح نمو میں اضافہ، خاص طور سے قابل ذکر ہیں اگر چہ روزگار کی فراہمی اور ان سے ملتے جلتے دوسرے کئی معاملات کے تعلق سے حکومت کی کارکردگی کو بحیثیت مجموعی منفی یا غیر اطمینان بخش تصور کیاجارہاہے جبکہ کورپشن کے حوالہ سے ابھی گراف اُسی مقام پر موجود اور برقرار دکھائی دے رہا ہے جہاں یہ کچھ سال قبل نظرآرہاتھا۔ اس حوالہ سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے جونئی درجہ بندی جاری کی ہے اُس سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ ملک میںکورپشن تقریباً اُسی مقام پر برقرار ہے جہاں پہلے تھا۔