۳۳؍برسوں سے جاری درپردہ جنگ نے کشمیر کو تباہ وبرباد کرکے رکھدیاہے۔ ہلاکتوں کے انبار، لاتعداد زخمیوں، بستیوں کی کھنڈرات میںتبدیلی، کفالت سے محروم گھروں اور خاندانوں کی داستانیں، بے چہرہ اور چہرہ لئے بندوقوں کا قہر،بے روزگاری کا دیو کا سایہ فگن ہونا، مقامی گھٹتی پیداوار کے نتیجہ میں روزمرہ ضرورتوں کیلئے درآمدات پر بڑھتا انحصار، محض چند گنے چنے معاملات ہیں جو ہر گذرتے دن کے ساتھ ہر شہری کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں۔ اگر چہ معاملات اور مسائل اور واقعات کی فہرست بہت لمبی ہے لیکن احاطہ کیاجائے تو کس کِس کا ؟
ڈائریکٹر جنرل پولیس آر آر سوائن نے ابھی چند گھنٹے قبل ایک بیان میں اعداد وشمارات پیش کرتے ہوئے کہا کہ گذرے ۳۳؍ برسوں کے دوران پولیس فورس سے وابستہ ۱۶؍سو اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد الگ سے ہے۔ انہوںنے ان پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کو اس عزم کے ساتھ وابستہ کیا کہ پراکسی وار کا مقابلہ کرنے اور سالمیت کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے یہ ان کی عہد بندی کا ہی تسلسل اور اظہار ہے۔ پولیس کی اسی عہد بندی اور عزم نے جموںوکشمیر پولیس فورس کو ملک میں سرفہرست مقام عطاکیا ہے جس کا ایک والہانہ ثبوت یہ بھی ہے کہ ہر سال کی طرح امسال بھی کشمیر پولیس نے جو ایوارڈ حاصل کئے وہ دوسری ریاستوں کی پولیس فورس کے برعکس کہیں زیادہ اور غالب ہیں۔
لیکن درپردہ جنگ کی مزاحمت کی یہ کہانی اسی پر ختم نہیں ہوتی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ بہت سارے افراد اور اداروں نے بھی پراکسی وار کا مقابلہ کیا اور نقصانات اُٹھائے، ازیتیں سہیں جس کے نتیجہ میں ان کی معاشی حالت بھی بگڑتی رہی۔خود سرکاری ریکارڈ اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ ان برسوں کے دوران زائد از ۴۵؍ ہزار شہری اپنی زندگیوںسے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پارلیمنٹ میں ابھی چند ہفتے قبل سکیورٹی فورسز اہلکاروں کی شہادتوں کے حوالہ سے جو اعداد پیش کئے گئے وہ کچھ کم نہیں۔
کم وبیش کشمیرکا ہر گھر اور ہرخاندان کسی نہ کسی پہلو اور حوالہ سے متاثررہا، البتہ اس ساری مدت کے دوران کچھ سیاستدانوں نے اپنے بھر پور انداز اور طریقے سے ڈبل رول اداکیا۔ آج بھلے ہی ان میں سے کچھ قومی دھارے سے وابستہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کی صف میں موجود نظرآرہے ہیں لیکن مختلف رول اداکرکے انہوںنے بھی پراکسی وار کشمیر کی سرزمین پر مسلط کرنیو الے اداروں کی معاونت کی، ان کے آلہ کار کے طور کام کیا، ہلاکتوں اور حوالہ کاروبار میں اہم کرداراداکیا لیکن اوسط کشمیری کی نگاہوں میں کشمیر کی تباہی وبربادی میں وہ برابر بحیثیت مجرم تصور کئے جارہے ہیں، چاہئے وہ کوئی بھی قومی دھارے سے وابستہ لبادہ اوڑھتے رہیں۔
پراکسی وار کے متاثرین ہر ممکن بازآبادکاری ، راحت اور امداد کے مستحق ہیں لیکن بہت سارے معاملات میں ان کی دادرسی نہیں کی گئی، اس حوالہ سے کہیں ضابطے اور قوائد وضوابط حائل ہیں تو کہیں پسند اور ناپسند تو علاقائی تعصب بھی کہیں کہیں دکھائی دے رہاہے ۔حالانکہ یہ سارے انسانی مسائل ہیں او رانسانی ہمدردی کے مسائل کی سمت میں یہ رکاوٹیں حائل نہیں ہونی چاہئے تھی۔
اس حوالہ سے ایس آر او ۴۳ کے تحت ملازمتیں فراہم کرنے کا معاملہ بھی عرصہ تک لٹکائے رکھا گیا، کیونکہ کسی اعلیٰ بیروکریٹ کو یہ پسند اور منظور نہیں تھا کہ اِس اس ایس آر او کے تحت ملازمتیں متاثرین کو فراہم کی جائیں۔ اس ناپسندیدگی سے عبارت رویہ اور اپروچ کے نتیجہ میں بھی مستحقین کو بہت ساری مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب اس ’’ناپسندیدگی‘‘ کی تلوار کو سروں پر سے ہٹادیاگیا اور ایڈمنسٹریشن نے بیک وقت ابھی چند گھنٹے پہلے ان مستحقین کو ایس آر او ۴۳ کے تحت ملازمتوں کے احکامات سے نوازا، جو واقعی ان افراد کیلئے بہت بڑی راحت ہے۔ ایڈمنسٹریشن کے اس اقدام کا عوامی حلقوں میںسراہنا کی جارہی ہے جبکہ ان احکامات کی اجرائی کو متاثرین کے حوالہ سے ایک بڑا راحتی اقدام قراردیاجارہاہے۔
پراکسی وار کو خاتمہ کے حوالہ سے اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری صرف فورسز ؍پولیس کی ہی نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں جب تک نہ اوسط شہری اس سمت میں اپنا مثبت اور اشتراکی رول اداکرے۔اگر چہ فورسز کی مختلف ایجنسیوں کے سرابراہاں بار بار اس بات کااعتراف کرتے رہے ہیں کہ جو کچھ کامیابیاں ملی ہیں اور بدستور مل رہی ہیں وہ عوام کے تعاون اور اشتراک سے ہی ممکن ہوئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عوام کی توقع یہ ہے کہ آپریشن کے دوران انسانی حقوق کی پاسداری او راوسط شہری کی زندگی، سلامتی اور صحت کا تحفظ ہر حالات اور ہر قیمت پر یقینی بنایاجانا چاہئے۔ عوام کااعتماد بنائے رکھنے اور ان کا تعاون او راشتراک کو یقینی بنانے کیلئے اس نوعیت کے اقدامات ناگزیر بن رہے ہیں۔
اس کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ پراکسی وار کے خلاف جنگ اپنے تقریباً آخری مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے۔اس مرحلہ پر کسی بھی طرح کی لغزش یا بداعتمادی واپس دھکیل سکتی ہے۔ لہٰذا چاہئے آپریشن ہورہا ہو یا آپریشن سے باہر کی کوئی سرگرمی ہو کے دوران ہر ممکن احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ پراکسی وار کے جو بھی خالق ہیں وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے اور ان کی ہمہ وقتی یہی کوشش رہیگی کہ کوئی نہ کوئی کسی جگہ محاذ کھولا جائے اور زخم دیاجائے، لہٰذا چوکسی بھی درکار ہے،عوام کااعتماد اور بھروسہ برقرار رکھنا بھی حاصل کامیابیوں اور اب تک کی پیش رفت کو بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہے ۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے بعد ہی حتمی ہدف حاصل کرنے کا راستہ ہموار ہوجائیگا۔